EOBI کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے غیر قانونی اجلاسوں سے ناقابل تلافی نقصان کا خدشہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

EOBI کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے غیر قانونی اجلاسوں سے ناقابل تلافی نقصان کا خدشہ
EOBI کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے غیر قانونی اجلاسوں سے ناقابل تلافی نقصان کا خدشہ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: وزارت سمندر پار پاکستانی و انسانی وسائل کے سیکرٹری کے احکامات پر محنت کشوں کے ادارے ایمپلائز اولڈ ایج بینفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی)کے بورڈ آف ٹرسٹیز (بی او ٹی)کا اجلاس بلانے کے لئے سیکریٹری بورڈ آف ٹرسٹیز ڈاکٹر جاوید شیخ کے نام ایک خط لکھا گیا ہے۔ جس میں عنقریب منعقد ہونے والے بورڈ آف ٹرسٹیز کے 123 ویں اجلاس کے لئے مختلف امور پر ورکنگ پیپر طلب کئے گئے ہیں۔

اس خط کی نقول چیئرمین، ڈائریکٹر جنرل ایچ آر شازیہ رضوی، ڈائریکٹر جنرل فنانس ناصرہ پروین خان، ڈائریکٹر جنرل آپریشنز اور ڈائریکٹر جنرل انوسٹمنٹ کو بھی ارسال کی گئی ہیں۔خط میں بورڈ آف ٹرسٹیز کے 123ویں اجلاس کے لئے تفصیلات مانگی گئی ہیں تاکہ بورڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس منعقد کرکے ای او بی آئی کا سالانہ بجٹ منظور کرایا جائے۔

ایم ایم نیوز کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ای او بی آئی ایکٹ 1976ء کے مطابق ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی مدت 2برس مقرر ہے۔ ای او بی آئی کے 18 رکنی بورڈ آف ٹرسٹیز میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اعلیٰ سرکاری افسران کے علاوہ چاروں صوبوں کے آجران اور ملازمین کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ وفاقی سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل بربنائے عہدہ بورڈ کے صدر ہیں۔ اس وقت عشرت علی بورڈ کے نئے صدر مقرر ہوئے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق ای او بی آئی کا موجودہ بورڈآف ٹرسٹیز 6 نومبر 2013 میں 2 برس کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔ جس میں سندھ سے 3اراکین اور آجران کے نمائندے محمد طارق رفیع اور صوبہ بلوچستان سے ملازمین کے نمائندہ سرزمین افغانی بورڈ کی کارکردگی سے مایوس ہو کر ابتداء ہی سے مستعفی ہوگئے تھے اور صوبہ سندھ کے سرکاری نمائندہ سیکریٹری محنت سندھ عبدالرشید سولنگی بھی کافی عرصہ سے بورڈ اجلاسوں میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔

جس کے باعث ای او بی آئی کے بورڈ میں ایک عرصہ سے صوبہ سندھ کے ہزاروں آجران اور صوبہ بلوچستان کے لاکھوں ملازمین خصوصاً کان کنوں کی نمائندگی نہیں ہو رہی ہے اور ان تینوں ارکان کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بقیہ بورڈ اراکین نے بعض من پسند فیصلے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

معلوم رہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز نے اختیارات نہ ہونے کے باوجود دسمبر 2020ء کو اس وقت کے چیئرمین اظہر حمید کو ان کی ریٹائر منٹ کے بعد مزید 3 برس کے لئے کنٹریکٹ پر چیئرمین ای او بی آئی تعینات کئے جانے کا متنازعہ فیصلہ کیا تھا۔بورڈ آف ٹرسٹیز نے ادارہ میں نہایت کلیدی عہدوں پر خلاف ضابطہ طور پر مختلف سرکاری محکموں سے آئے ہوئے ڈیپوٹیشن افسران کی مبینہ اجارہ داری قائم کرکے سنگین مالی اور انتظامی بدعنوانیوں اور اختیارات کے ناجائز پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

واضح رہے کہ ای او بی آئی میں بد انتظامی کی اس صورت حال کے باعث ادارہ کے ملک بھر کے ریجنل آفسوں میں ہزاروں بزرگ معذور بیمہ دار ملازمین اور متوفی بیمہ دار ملازمین کی بیواؤں کو اپنی پنشن کے حصول میں بیحد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔دستاویزات کے مطابق اگرچہ موجودہ بورڈ کی مقررہ مدت 2015 میں ختم ہوچکی تھی۔حیرت انگیز طور پر بورڈ کی مدت میں کسی قسم کی توسیع کانوٹیفکیشن جاری نہ ہونے کے باوجود بورڈ دسمبر 2020ء تک کام کرتا رہا ہے۔

اس دوران بورڈ ا ٓف ٹرسٹیز نے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے اپنی بورڈ اجلاس میں شرکت کی فیس ازخود 5 ہزار روپے یومیہ سے بڑھا کر 25 ہزار روپے یومیہ منظور کرلی تھی۔معلوم ر ہے کہ وفاقی کابینہ گزشتہ دنوں ای او بی آئی کے نئے بورڈ آف ٹرسٹیز کی تشکیل کے لئے منظوری دے چکی ہے۔ لیکن وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل اسلام آباد کی غفلت اور عدم دلچسپی کے باعث تاحال ادارہ کا نیا بورڈ آف ٹرسٹیز تشکیل نہیں دیا جاسکا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے انعقاد کے لئے خط لکھنے والے وزارت سمندر پار پاکستانی کے سیکشن افسر ڈاکٹر جبران حسین اصل میں ای او بی آئی کے ملازم ہیں،جنہوں نے دوران ملازمت گھر بیٹھے ملائشیاء کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے جس پر محنت کشوں کے فنڈز سے 15 ہزار روپے ماہانہ پی ایچ ڈی الاؤنس بھی حاصل کر رہے ہیں۔

جبران حسین کا اصل مقام تعیناتی بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز ریجنل آفس حسن ابدال میں تھا لیکن جبران حسین مبینہ طور پر بھاری سفارش کی بدولت وزارت میں بطور سیکشن افسر ای او بی آئی تعینات ہیں۔ جو قانون کے مطابق ای او بی آئی اور وزارت کے مفادات کے ٹکراؤ کے عین مترادف ہے۔دریں اثنا ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی قانونی مدت 2015 ء میں ختم ہو جانے کے بعد اس کی جانب سے کئے گئے متعدد اہم فیصلوں کی قانونی حیثیت پر کئی سوال اٹھ گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: محکمہ تعلیم کالجز میں ایماندار پرنسپلز پر من مانیوں کے لئے دباؤ بڑھنے لگا

اس حوالے سے ای او بی آئی پنشنرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے چیئرمین اظفر شمیم نے اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے موقف دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھی تحفظات ہیں کہ جب بورڈ آف ٹرسٹیز کی مدت ختم ہوئے بھی 6 برس گزر چکے ہیں اور نیا بورڈ اور نئے ممبران تک نہیں بنائے گئے پھر کس اجلاس کی تیاری کی جارہی ہے اور 6 برس میں بغیر مدت کے جو اجلاس ہوئے اور ان میں جو فیصلے ہوئے ان کی قانونی حیثیت کیا ہے۔اس سے ناقابل تلافی نفصان ہو سکتا ہے۔ لہذاہ میں دوبارہ ایک خط وزارت سمندر پار پاکستانی و انسانی ترقی وسائل کو لکھوں گا۔

Related Posts