سعودیہ میں پہلا شراب خانہ کھل گیا، کیا شہزادہ سلمان مغرب کی طرف جارہے ہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Medium
Medium

ریاض: سعودی عرب میں اپنا شراب خانہ کھلنے کے بعد سوالات شروع ہوگئے ہیں کہ کیا واقعی سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان مغرب کی طرف جارہے ہیں۔

سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق شراب خانہ کھولنے کی سرکاری طور پر سعودی حکومت نے تصدیق نہیں کی ہے تاہم یہ اقدام سعودی عرب کے لیے ایک اہم پیش رفت کی نشاندہی کرتا ہے جہاں 1952 سے شراب پر پابندی عائد ہے۔

سعودی عرب نے اپنے دارالحکومت ریاض کے سفارتی کوارٹر میں شراب کی پہلی دکان کھولی ہے۔اسٹور قوانین کی فہرست کے مطابق یہ مقام صرف غیر مسلم سفارت کاروں کے لیے قابل رسائی ہے اور اجازت کی توثیق ڈیپلو نامی ایپ کے ذریعے ممکن ہے۔

ذرائع نے سی این بی سی کو بتایا کہ سعودی عرب طویل عرصے سے غیر ملکیوں کو شراب کی فراہمی کے حوالے سے مسائل کا شکار ہے کیونکہ سفارت کار درآمد شدہ الکحل بلیک مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق کسی بھی مہمان یا 21 سال سے کم عمر کے لوگوں کو اسٹور پر مجاز شخصیات کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں ہے، فوٹو گرافی سختی سے ممنوع ہے اور موبائل فونز کو محفوظ “موبائل پاؤچز” میں رکھنے کی شرط رکھی گئی ہے تاکہ اسٹور میں رہتے ہوئے فون کا استعمال نہ کیا جائے۔ یہاں شراب کی خریداری بھی رجسٹرڈ فرد کے ماہانہ کوٹہ سسٹم کے تابع ہیں۔

واضح رہے کہ سعودی عرب ایک قدامات پسند ملک ہے تاہم گزشتہ کچھ برسوں میں سعودی عرب میں کئی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں، مبصرین کا کہنا ہے کہ ولی عہد شہزادہ سلمان کی قیادت میں سعودی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔

نوجوان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سعودی عرب میں سماجی اور اقتصادی طور پر دونوں طرح کی تبدیلیاں آئی ہیں۔

ولی عہد محمد بن سلمان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے مملکت نے آزادانہ اصلاحات کا ایک سلسلہ دیکھا ہے، جس میں سعودی عرب نے خواتین کو ڈرائیونگ، فلم تھیٹر اور کنسرٹس جیسے اقدامات بھی شامل ہیں جبکہ شراب خانہ کھولنے کے بعد ایک بار پھر شہزادہ سلمان کے مغربی پالیسیوں کی طرف جانے کے حوالے سے سوالات شروع ہوگئے ہیں۔

Related Posts