وائس چانسلرکا تقرر کرنے والی سرچ کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وائس چانسلرکا تقرر کرنے والی سرچ کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
وائس چانسلرکا تقرر کرنے والی سرچ کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: حکومت سندھ کی جانب سے سندھ بھر سرکاری 24جامعات میں وائس چانسلرسمیت دیگر اعلی عہدوں پر تقرر کرنے کے لئے سرچ کمیٹی قائم کی گئی تھی، سرچ کمیٹی کا قیام میجر(ر)لودھی کی وجہ عمل میں آیا تھا، جس کے لئے صرف ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا،کمیٹی کی اولین زمہ داری جامعات کے وائس چانسلر اور بورڈ کے چیئرمین سمیت دیگر کلیدی عہدوں کے امیداروں کا ڈیٹا جمع کرکے ان میں اہل امیدواروں کی سفارشات متعلقہ اتھارٹی کو بھیج دینا ہے۔

وائس چانسلر اور چیئرمین بورڈ کا تقرر کرنے کے لئے قائم سرچ کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر قدیر راجپوت کی جانب سے متعدد ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں،جس سے سرچ کمیٹی کے قیام اور اس کی واضح جانبداری پر سوالا ت اٹھ گئے ہیں،تعلیمی ماہرین اور اساتذہ نمائندوں کی جانب سے ڈاکٹر قدیر راجپو ت کو سرچ کمیٹی سے علیحدہ کرنے اور ان کی جانب سے کئے گئے فیصلوں کا فارنزک آڈٹ کرانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

سرچ کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر قدیر راجپوت نے بعض جامعات میں وائس چانسلر کے امیدواروں کے ساتھ جانبداری کا سلوک کرکے بہترین پروفیسر کے کیئریئر کو داؤد پر لگا دیا ہے، جس کی وجہ سے وائس چانسلر کے بعض امیدواروں نے عدالت سے انصاف کے لئے رجوع کرلیا ہے۔

معلوم ہو اہے کہ لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ کو شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کا دوسرے ٹینیور کے لیے وائس چانسلر تعینات کیا گیا،جب کی اختر بلوچ 12 شارٹ لسٹ کردہ امیدوار مکمل طور پر اہل تھے جبکہ ڈاکٹر اختر بلوچ کا انتظامی تجربہ سرچ کمیٹی کی جانب سے شائع شدہ اشتہار کے مطابق 9 ماہ کم تھا۔ جس کے باوجود انہین حتمی 3 رکنی پینل میں بھی شامل کر کے سمری وزیراعلیٰ سندھ کو ارسال کی گئی۔

اس کے علاوہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں کے وائس چانسلر کے لیے ڈاکٹر لنبی بیگ کو پہلے اور ڈاکٹر امجد سراج کو دوسرے نمبر رکھا گیا، دونوں کے پاس دہری شہریت ہے۔ ان دونوں سے پروفیسر ڈاکٹرعمر فاروق زیادہ موزوں امیدوار تھے۔ مگرڈاکٹر عمرفاروق کو وائس چانسلر کی فہرست سے باہر کرکے دوسرے نمبر کے امیدوار کو وائس چانسلر تعینات کردیا گیا ہے۔

اسی طرح مہران یونیورسٹی میں دو بار وائس چانسلر رہنے والے ڈاکٹر اسلم عقیلی کو سرچ کمیٹی کی جانب سے تیسری بار داؤ د انجنیئرنگ یونیورسٹی کا وائس چانسلر تعینات کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔

حیران کن امر یہ ہے کہ وائس چانسلر کی تقرری کے لئے قائم کردہ سرچ کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالقدیر راجپوت جو خود مہران یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر رہ چکے ہیں اور اب وہ پروفیسر ایمریطس بھی ہیں۔یوں مہران یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم عقیلی کے تحت ہونے کے باوجود اپنے وائس چانسلر کا انٹرویوکیا اور پھر داؤد یونیورسٹی میں تیسری بار وائس چانسلر تعینات رہنے والے اسلم عقیلی کو 64نمبر دیئے۔

داؤد یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے تقرر کے لئے انٹرویو پینل میں سرچ کمیٹی کے 5مستقل ممبران کے علاوہ پانچ عارضی ممبران میں بھی ڈاکٹر اسلم عقیلی کے مفادات کا تحفظ کرنے والے ہی ممبران کو شامل کیا گیا،جن میں مستقل ممبران میں اے کیو مغل اور اور ڈاکٹر نیلوفر شیخ کے علاوہ غیر مستقل ممبران میں  مہران یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کے ممبران کو شامل کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے مہران یونیورسٹی کے دو بار وائس چانسلر رہنے والے ڈاکٹر اسلم عقیلی کو پہلے نمبر 64نمبر،مہران یونیورسٹی کے ہ پروفیسر ڈاکٹر حفیظ کو 63نمبر اور پروفیسر ڈاکٹر آفتاب کو 61نمبر دیئے تھے تاہم فی الحال معاملہ رکا ہوا ہے۔

ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ سرچ کمیٹی کو کسی بھی قسم کا اختیار نہیں کہ وہ حکومت سندھ کے ترقیوں اور تقرریوں کے طے شدہ رولز کے برعکس فیصلے کرے،جب کہ سرچ کمیٹی نے وائس چانسلر کے امیدواروں میں سے بعض امیدواروں کے اسسٹنٹ پروفیسر کے تجربہ کو کاؤنٹ ہی نہیں کیا ہے، جب کہ اصولی طور پر گریڈ 17 سے زائد کا تجربہ تسلیم کیا جاتاہے۔

مزید پڑھیں: سندھ مدرسۃالسلام کے سابق وائس چانسلرسے سوا کروڑ روپے سے زائد ریکوری کی تیاری

ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لئے 5امیداروں کے ڈیٹا جمع کرنے کے بعد اس کے انٹرویوز کے بعد پانچوں امیدواروں کو نااہل قرار دیا تھا جب کہ سرچ کمیٹی کا یہ مینڈیٹ ہی نہیں کہ وہ از خود کسی کو اہل قرار دے یا کسی کو بھی نااہل نہ قرار دے۔

ڈاکٹر قدیر راجپوت بحثیت چارٹرانسپیکشن اینڈایویلیوایشن کمیٹی کے سربراہ گریڈ 20کی تنخواہ و مراعات کے حق دار تھے جبکہ انہوں نے ایم پی ون کی تنخواہ اور مراعات لی ہیں، ڈاکٹر قدیر راجپوت کے پاس اس وقت محکمہ جامعات اینڈ بورڈ کی ایک کلٹس اور ایک کرولا گاڑی بمعہ 300لیٹر پٹرول اور مہران یونیورسٹی کی ایک گاڑیای استعمال میں رکھی ہوئی ہیں۔ماہرین تعلیم کاکہنا ہے کہ ان سے تنخواہیں بھی واپس لی جائیں اور ریکوری کی جائے۔

سندھ ایگری کلچر یونیورسٹی ٹنڈو کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب الدین میمن دو بار وائس چانسلر رہ چکے ہیں ، جن کو تیسری بار وائس چانسلر بنانے کے لئے دوسری بار کی وائس چانسلر شپ کی مدت مکمل ہونے سے دو ماہ قبل ہی سرچ کمیٹی سے اچھے مراسم کی وجہ سے تیسری بار کے لئے سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کاراستہ دیکھا دیا گیا ، جس کے بعد انہیں سندھ مدرسۃ السلام یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا گیا ہے ،جب کہ ڈاکٹر مجیب الدین میمن کا تعلق بھی مہران یونیورسٹی سے ہے جو 2009 سے مہران یونیورسٹی سے چھٹی (لین )پر ہیں ۔معلوم رہے کہ لین پر چھٹی نوکری پر صرف ایک بار دی جاتی ہے اور مجیب الدین سحرائی میمن کو 12برس سے اسی چھٹی پر ہیں ۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق کسی بھی ریٹائرڈ ملازم کو دوبارہ کنٹریکٹ پر نہیں رکھا جاسکتا ہے ،جب کہ سندھ میں سرچ کمیٹی کی جانب سے سرچ کمیٹی کے ذریعے ریٹائرڈ ملازمین کو دوبارہ اور تیسری بار بھی اعلی ترین عہدوں پر تعینات کرکے یونیورسٹیز اور بورڈ ز کو چلایا جارہا ہے ۔

Related Posts