داؤد یونیورسٹی میں غیر قانونی بھرتیوں پر اینٹی کرپشن کے ذریعے پردہ ڈالنے کی تیاری

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

داؤد یونیورسٹی میں غیر قانونی بھرتیوں پر اینٹی کرپشن کے ذریعے پردہ ڈالنے کی تیاری
داؤد یونیورسٹی میں غیر قانونی بھرتیوں پر اینٹی کرپشن کے ذریعے پردہ ڈالنے کی تیاری

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی:داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں غیر قانونی بھرتیوں اور ترقیوں کے خلاف اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ ایسٹ زون میں جاری انکوائری کو اپنے حق میں کرانے یا ختم کرانے کیلئے پیپلز پارٹی کی بعض شخصیات بھی سر گرم ہو گئی ہیں جس کے لئے جامعہ کے ایماندار افسران نے بلاول بھٹو زرداری سے اپیل کی ہے اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو منع کریں کہ وہ تعلیمی اداروں میں ہونے والی کرپشن کی حمایت میں نہ جائیں۔

ایم ایم نیوز کو موصول ہونیو الی دستایزات کے مطابق اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ ایسٹ زون کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد ابراہیم میمن کے حکم پر انکوائری افسر عبدالغنی کی جانب سے 30 جون کو داؤد یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے رجسٹرار سیدآصف علی شاہ کے نام لیٹر لکھ کر غیر قانونی بھرتیوں کی شکایات پر انکوائری کیلئے دستاویزات طلب کی گئیں تھیں۔جس کے بعد اینٹی کرپشن حکام کی جانب سے دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد مطمئن نہ ہو کر بھرتی ہونے والے افسران و ملازمین کو بلا کر ان سے اسٹیٹمنٹ لینے کے لئے پھر خط لکھا تھا۔

داؤد یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے رجسٹرار سید آصف علی شاہ نے اینٹی کرپشن کو جو دساویزات جمع کرائی ہیں، ان میں  واضح طورپر غیر قانونی بھرتیوں کا سراخ اینٹی کرپشن نے لگا لیا ہے۔ رجسٹرار کی جانب سے جمع کرائے جانے والے ریکارڈ کے مطابق انجنیئر ساجد سیال اور دریا خان کاکے پوٹو 2014میں گریڈ 18میں لیکچرر بھرتی کئے گئے تھے،جس کے لئے سینڈیکیٹ نے منظوری دی تھی،تاہم سنڈیکیٹ کے رولز کے مطابق سلیکشن بورڈ کے ذریعے ہی بھرتی کئے جاسکتے ہیں جس کے لئے اشتہاربھی دینا لازمی ہے جب کہ مذکورہ دونوں افسران کے لئے اشتہار جاری ہوا نہ ہی سلیکشن بورڈ منعقد ہوا۔

رجسٹرار نے غلط بیانی کرتے ہوئے اینٹی کرپشن کا بتایا کہ بھرتیاں سنڈیکیٹ کے ذریعے ہوئی ہیں جب کہ بھرتی ہونے والوں کے لیئے کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی تھی نہ ہی کسی کے انٹرویوز لیئے گئے تھے۔جب کہ سنڈیکیٹ بھرتی کرنے کی اتھارٹی ہے تاہم اتھارٹی کے برعکس بھرتی کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ طارق چانڈیو اور تہمینہ فاطمہ کے لئے جمع کرائی گئی دستاویزات میں اخبار میں 26نومبر 2017کو اشتہار دیا گیا تھا،جب کہ بھرتی ہونے والے طارق چانڈیو اور تہمینہ فاطمہ سمیت دیگر کو بھرتی کے اشتہار سے ایک ماہ قبل 21اور 22اکتوبر کو انٹرویو کیلئے سلیکشن بورڈ کے سامنے بلایا گیا تھا اور 28اکتوبر 2017کو طارق چانڈیو کو لیب انجنیئر کے طور پر اور تہمینہ فاطمہ کو جیولوجسٹ کے طور پر بھرتی کرلیا گیا تھا جب کہ اینٹی کرپشن کو تہمینہ کی بھرتی کا اشتہار بھی پیش نہیں کیا جاسکا ہے جب کہ پی ای سی کا کارڈ بھی فراہم نہیں کیا ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ تہمینہ کا این ٹی ایس کارڈ رجسٹرار نے اینٹی کرپشن کو پیش کیا ہے،اس کارڈ کے مطابق تہمینہ نے این ٹی ایس کا ٹیسٹ 16جولائی 2014کو دیا تھا جب کہ این ٹی ایس رزلٹ کارڈ کے ایشو کی تاریخ 6 جولائی 2014ہے یعنی رزلٹ کارڈ پہلے جاری ہوا اور ٹیسٹ بعد میں ہوا۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ این ٹی این کے2014 کے شیڈول کے مطابق 16 جولائی 2014 کو کوئی بھی ٹیسٹ منعقدہی نہیں ہواتھا۔

این ٹی ایس کی ویب سائٹ کے شیڈول کے مطابق ٹیسٹ 6 جولائی 2014کو منعقد ہوا تھا اور این ٹی ایس کی ویب سائٹ پر ابھی تک اس تاریخ میں کوئی بھی رزلٹ ظاہر نہیں ہو رہا ہے۔ رجسٹرار نے کمال چالاکی کرتے ہوئے تہمینہ فاطمہ کے رزلٹ کارڈ پرداؤد یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ پٹرولیم اینڈ گیس کے سابق چیئرمین ڈاکٹر انجنیئر سلیم قادر تونیو کی مہر ثبت کرکے ان کے دستخط ہی نہیں کئے ہیں، جب کہ پٹرولیم اور گیس کے شعبہ کے موجودہ چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر راشد کورائی کو معلوم ہی نہیں ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مجتبی کے بارے میں رجسٹرار سید آصف علی شاہ نے اینٹی کرپشن کو جواب جمع کرایا کہ 20 فیصد نان انجنیئر بھرتی کیئے جا سکتے ہیں جب کہ اخبار میں بھرتی کیلئے دیئے گئے اشتہار میں ایسی کوئی بھی شق شامل نہیں کی گئی تھی جب کی اشتہار میں  پی ای سی کارڈ لازم قراردیا گیا تھا۔حیران کن امر یہ بھی ہے کہ رجسٹرار کی جانب سے اینٹی کرپشن کو جو اشتہار جمع کرایا ہے۔

اس میں اسسٹنٹ پروفیسر کی کوئی بھی اسامی موجود نہیں ہے۔جسکے باوجود ڈاکٹر غلام مجتبی کو اسسٹنٹ پروفیسر گریڈ 19 میں بھرتی کیا گیا تھا،جب کہ خلاف ضابطہ بھرتی ہونے والے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر غلام مجتبی پر مزید مہربانی کرتے ہوئے انہیں گریڈ 21 کی سیٹ پر ڈائریکٹر ORIC تعینات کیا گیا ہے۔دوسری جانب رجسٹرار نے اینٹی کرپشن کے بار بار مانگنے کے بعد اسسٹنٹ ڈائریکٹر عدیل نائچ کا تجرباتی سرٹیفکیٹ ابھی تک جمع نہیں کرایا ہے۔

مزید پڑھیں: اینٹی کرپشن نے داؤد یونیورسٹی میں بھرتیوں کیخلاف انکوائری شروع کردی

اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اینٹی کرپشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ایسٹ زون محمد ابراہیم میمن کو پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں اوروائس چانسلر کے قریبی سیاسی شخصیت کی جانب سے پیپلز پارٹی کا اثر و رسوخ استعمال کرکے اینٹی کرپشن کو خاموش کرانے کی کوشش کی جارہی ہے،جب کہ سفارش کیساتھ ساتھ اینٹی کرپشن کو خوش کرنیکی بھی لالچ دی جارہی ہے،جس کی وجہ سے اینٹی کرپشن افسران نے انکوائری بھی روکی ہوئی ہے۔تاہم اینٹی کرپشن کی غیر شفاف انکوائری کی صورت میں اینٹی کرپشن کے خلاف عدالت سے رجوع کیاجائے گا۔

اس حوالے سے ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ایسٹ زون محمد ابراہیم میمن نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ہم دستاویزات کو دیکھ رہے ہیں  اور انکوائری چل رہی ہے اور کوشش ہے جلد انکوائری مکمل ہو، 90روز تک اانکوائری کا آفیشل وقت ہوتا ہے اس سے زائد وقت لینے کے لئے متعلقہ اتھارٹی سے مذید اجازت لی جاسکتی ہے۔محمد ابراہیم میمن نے سختی سے تردید کی ہے ہم کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی کسی سے کسی بھی صورت میں مرعوب ہو کر انکوائری پر کمپرومائز کریں گے۔

Related Posts