ناانصافی امن کی دشمن

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سورۂ نحل کی آیت نمبر 90 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: بے شک اللہ انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے اور بے حیائی اور بری بات اور ظلم سے منع کرتا ہے، تمہیں سمجھاتا ہے تاکہ تم سمجھو۔

ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرم ﷺ پر نازل ہونے والی یہ سب سے وسیع المعانی آیت ہے جبکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ ہر جمعے کو اپنے خطبے کے اختتام پر یہی آیت تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ آپ کو وہ کرنے کا حکم نہیں دیتا جو وہ خود نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ آپ کو انصاف پسند اور رحم دل ہونے کا حکم دیتا ہے اور وہ خود سب سے زیادہ انصاف کرنے والا اور سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور میں نے تم سب کو بھی ظلم سے منع فرمایا ہے۔

ابنِ قیم کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی فطرت کو تشکیل دینے والے تین عناصر ہوتے ہیں جو انصاف، رحم اور توحید ہیں۔

اللہ سے انصاف

آپ پراللہ تعالیٰ کا حق دیگر تمام کے حقوق سے عظیم تر اور سب سے بڑا ہے جس کی ادائیگی کے دوران انصاف کا خیال رکھنا سب سے کمتر اور احسان سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔

 پروردگارِ عالم سے انصاف کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ کے حقوق کی ادائیگی کیلئے تنہائی اور محفل دونوں میں قابلِ بھروسہ ہیں جبکہ آپ کا محفل کے مقابلے میں تنہائی کے اوقات میں اللہ سے تعلق کہیں بہتر ہونا چاہئے۔

انصاف اور امن پسندی

ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے امن کی تعریف کچھ اس طرح بیان کی ہے کہ امن پریشانی کی غیر حاضری کا نام نہیں بلکہ اس کا مطلب انصاف کی موجودگی ہے۔ عربی میں امن یا سلامتی کا مطلب بدامنی یا خانہ جنگی سے آزادی ہے۔

نبئ آخر الزمان ﷺ فرماتے ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ مسلمان کا لفظ سلام یا سلامتی سےاخذ کیا گیا ہے۔

جنت کو دارالسلام کہا جاتا ہے کیونکہ جنت  کسی بھی قسم کے نقص یا امن کو خراب کرنے والی کسی بھی شے سے پاک ہوگی۔  اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک اہم نام السلامبھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات بھی کسی قسم کے نقص یا خلل سے پاک ہے۔ اسلامی تعریف اور عربی زبان کے اعتبار سے امن کا مطلب تکلیف دہ اشیاء کی عدم موجودگی بھی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی نظرئیے کے لحاظ سے ناانصافی کی موجودگی میں حقیقی امن قائم ہوسکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب واضح طور پر نفی میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

انصاف اور کامیابی

سورۂ نحل کی آیت نمبر 90میں ہمیں درس دیا گیا کہ عدل (انصاف) کے بغیرآپ احسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے۔ جب لوگوں کے حقوق پامال ہو رہے ہوں تو آپ کو اپنی سہولیات کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دینی چاہئے بلکہ  آپ کو ظلم کو ختم کرنے پر دھیان دینا ہوگا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عدل معاشرے سے نفرت ختم کردیتا ہے جبکہ احسان نیکی کے پرچار کا نام ہے۔

آپ کسی بھی ناانصافی کا سامنا کرنے والے شخص کو اپنے حقوق چھوڑ کر احسان کرنے کا درس نہیں دے سکتے بلکہ اِس کی بجائے آپ کو چاہئے کہ ایسے لوگوں کو وہ انصاف مہیا کریں کہ وہ خود احسان کی طرف مائل ہوں۔ بدلے کے طور پر کوئی شخص احسان کرتا ہے یا نہیں، یہ اس کا اختیار ہے۔ تاہم، جب ظلم کے خلاف بدلہ لینے کی باری آئے تو آپ مظلوم کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ رحم دلی اور احسان کا معاملہ کرے لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ مظلوموں کو احسان یا رحم دلی کیلئے بھی دباؤ ڈال کر مجبور نہ کیا جائے۔

احسان وہ معیار ہے جس پر آپ کو خود قائم رہنا پڑتا ہے۔ یہ وہ شے نہیں جس پر عمل کیلئے آپ دوسروں کو مجبور کریں۔ اگر آپ احسان یا رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں تبھی آپ اللہ سے بھی انصاف کی توقع کرسکتے ہیں۔

قرآنِ پاک کی سورۂ الشعراء  میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور جب ظلم ان پر ان پر حملہ آور ہوتا ہے تو وہ اپنا دفاع کرتے ہیں۔ یعنی  اگر آپ کسی ظالم کے ظلم کے خلاف نہیں لڑتے تو آپ دوسروں کو دبانے کیلئے اس ظالم کو طاقت دینے کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔ میلکم ایکس نے کبھی ظلم و تشدد کو استعمال نہیں کیا اور کبھی تشدد کی ترویج نہیں کی لیکن ان کو یہ غلط یقین تھا کہ مظلوم عوام کو عدم تشدد کو ایک اصول کے طور پر اپنانا چاہئے چاہے ظالم تشدد کرتے رہیں۔

دوسری جانب سورۂ الشعراء کی آیت نمبر 40 تا 42 میں ہمیں سمجھایا گیا کہ کسی مظلوم کو بدلہ لینے یا اپنے حقوق طلب کرنے پر موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ غلطی کا بوجھ ظالم کی گردن پر ہونا چاہئے۔ اگر مظلوموں کو انصاف اور رحم دلی کے اختیارات آزادی کے ساتھ دئیے گئے ہوں تو صرف ایسی ہی صورت میں مظلوموں کو رحم دلی کی ترغیب دینا جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔

ابنِ تیمیہ کے مطابق اسلامی حکومت کی ذمہ داریاں قرآنِ پاک کی ایک ہی آیت میں بتا دی گئیں جو سورۂ نسا& کی آیت نمبر 58 ہے: بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں نہایت اچھی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔

اِس کا مطلب یہ ہے کہ قانونی عدل بحالی کے درجے کے انصاف سے پہلے آتا ہے اور اقتدار پر فائز ایک شخص کو چاہئے کہ پہلے یہ بات یقینی بنائے کہ ہر شخص کو امن حاصل ہو اور وہ ظلم جیسی کسی بھی چیز سے محفوظ ہوں۔ مثال کے طور پر یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ غریب اور امیر کیلئے جرائم کی شرح یکساں رہے گی۔

 افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی وجہ سے جرم کرنے کی غریبوں کو امیروں کے مقابلے میں زیادہ سزا دی جاتی ہے جبکہ انصاف کی بحالی پہلا کام ہے جس کے بعد ہی نیکی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

یہاں میں شیخ عمر سلیمان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے کالم سے مجھے رہنمائی اور علم حاصل ہوا کیونکہ میری یہ تحریر ان کی سماجی انصاف پر احادیث اور لیکچر سیریز سے ماخوذ ہے۔ دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کاوشوں اور اسلام کی عظیم خدمت کیلئے انہیں اجرِ عظیم عطا فرمائے۔میں نے جو کچھ بھی اچھا لکھا، اللہ تعالیٰ کی رضا سے ممکن ہوا جبکہ یہاں کی گئی غلطیوں کو میری ذاتی خطا سمجھئے گا۔

Related Posts