اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ نہ بنانے کی وجوہات کیا ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسحاق ڈار
(فوٹو: جی این این)

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: وفاقی کابینہ کی حلف برداری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت کابینہ کا پہلا اجلاس بھی ہوچکا ہے تاہم کابینہ کے اہم رکن اور نواز شریف کے معتمدِ خاص اسحاق ڈار کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان نہیں دیاجاسکا۔

اسحاق ڈار کی جگہ محمد اورنگزیب کو وفاقی وزارتِ خزانہ کے قلمدان سے نوازا جاچکا ہے جو پیشہ ور بینکر اور 5 سال سے حبیب بینک لمیٹڈ کے صدر رہ چکے ہیں۔ اسحاق ڈار پہلی بار 1998 میں وزیر خزانہ بنے اور 2013 میں بھی ن لیگی حکومت میں وزارتِ خزانہ کا قلمدان اسحاق ڈار کے حوالے کیا گیا تھا۔

جب 2017 میں شاہد خاقان عباسی کو نواز شریف کو نااہل قرار دئیے جانے کے بعد مجبوراً وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا تو اس دور میں اسحاق ڈار کی جگہ شاہد خاقان عباسی کے ہم خیال مفتاح اسماعیل کو وزیرِ خزانہ کے عہدے سے نوازا گیا تاہم مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں پر کافی تنقید ہوئی۔

بعد ازاں مفتاح اسماعیل کو عہدہ چھوڑنا پڑا اور جب تحریکِ انصاف کی حکومت تحریکِ عدم اعتماد لا کر قانونی طریقے سے اپریل 2022 میں گھر بھیج دی گئی تو شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سنبھالی اور 16ماہ تک حکومت کی جس کے دوران مفتاح اسماعیل کو 5مہینوں کی وزارت ملی۔

ستمبر 2022 میں اسحاق ڈار کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپے جانے سے قبل مفتاح اسماعیل کے بیانات اور پارٹی قائدین سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات سے یہ اشارہ ملا کہ مفتاح اسماعیل وزارتِ خزانہ چھوڑ نہیں رہے، تاہم اسحاق ڈار کی جگہ بنانے کیلئے انہیں ہٹایا جارہا ہے۔

مفتاح اسماعیل کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) میں اسحاق ڈار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وقت کے وزیر خزانہ کو عہدے سے نہ صرف ہٹایا گیا بلکہ تاریخ میں پہلی بار مسلم لیگ (ن) نے اپنا وزیر خزانہ تبدیل کرکے انہیں یہ عہدہ دیا تاہم اسحاق ڈار عوامی توقعات پر پورے نہیں اتر سکے۔

ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کے آئی ایم ایف مخالف بیانات، ڈالر کو نیچے لانے کیلئے بلند بانگ دعوے جنہیں وہ پورا نہیں کرسکے اور مہنگائی پر قابو نہ پاسکنے کے باعث موجودہ شہباز شریف حکومت اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنانے سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور شاید یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔

Related Posts