جیت کیلئے جذبہ ہی نہیں ہمت بھی ضروری ہے!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں امن و امان کی بحالی کے بعد ملک خدا داد میں کرکٹ کے سونے میدان بھی آباد ہوچکے ہیں ۔گزشتہ سال کیوی ٹیم کے افسوسناک فرار کے بعد 24 سال بعد آسٹریلوی ٹیم کے دورے نے پاکستان میں غیر ملکی ٹیموں کی آمد کے دروازے کھول دیئے ہیں۔

کینگروز نے لاتعداد سازشوں، خدشات اور وسوسوں کے بعد پاکستان کیلئے رخت سفر باندھا تو کرکٹ شائقین کی خوشی دیدنی تھی اور کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں ٹیسٹ میچوں میں گوکہ شائقین کی تعداد کم تھی لیکن یہ دورہ دیگر ٹیموں کی پاکستان آمد کیلئے ایک مثال بن سکتا ہے۔

نگاہ محمد کے مزید کالمز پڑھیں:

پی ایس ایل 7 کا فاتح کون ؟

بابراعظم کراچی کنگز کی شکست کے کتنے ذمہ دار؟

جہاں اس سیریز سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے دروازے کھل گئے، وہیں اس دورہ میں ایک مایوس کن پہلو بھی نظر آیا وجو جیت کے جذبے اور ہمت کا فقدان تھا۔ دنیا کا کوئی بھی کھیل ہو، اس میں آپ کی حکمت عملی مخالف کو میدان میں چت کرنے کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔

جہاں تک کرکٹ کا تعلق ہے تو اس میں وکٹ یعنی پچ کا بہت اہم کردار ہوتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کے دورہ پاکستان کے پہلے ٹیسٹ میں انتہائی بے جان وکٹ تیار کی گئی اور پاکستان کی حکمت عملی دیکھ کر کہیں نہیں لگا کہ یہ کوئی بین الاقوامی میچ ہے بلکہ یہی گمان گزرا کہ شائد قومی ٹیم کے کھلاڑی نیٹ پر بیٹنگ کی پریکٹس کررہے ہیں۔

راولپنڈی ٹیسٹ نے جہاں پاکستان میں 24 سال آسٹریلوی ٹیم کے دوبارہ ٹیسٹ کھیلنے کی تاریخ رقم کی وہیں انتہائی ناقص حکمت عملی اور جوش و جذبے کی کمی واضح دکھائی دی۔ قومی ٹیم کے کھلاڑی بیانات میں تو زمین آسمان کے قلابے ملانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں لیکن میدان میں کارکردگی پربات کی جائے تو اوسط درجہ کی کارکردگی پر بھی انداز و اطوار ایسے ہیں کہ خدا کی پناہ۔

راولپنڈی ٹیسٹ میں کسی موڑ پر ایسا نہیں لگا کہ قومی ٹیم جیت کیلئے میدان میں اتری ہےجبکہ کراچی کا ٹیسٹ بھی ہمارے بلے بازوں کے روایتی خوف کی وجہ سے ڈرا
ہوا۔  یہ سچ ہے کہ پاکستان نے کراچی ٹیسٹ میں ہار کو ڈرا میں تبدیل کیا لیکن اگر ڈرا کے بجائے جیت کی حکمت عملی بنائی جاتی تو عین ممکن تھا کہ پاکستان کراچی ٹیسٹ میں فتح سے ہمکنار ہوجاتا۔

لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں تیسرے ٹیسٹ میں ابتداء میں یوں محسوس ہوا کہ شائد یہ ٹیسٹ بھی بے نتیجہ ختم ہوجائیگا لیکن آسٹریلوی قائد نے انتہائی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تقریباً 120اوورز میں 351 رنز کا ہدف دیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ چوتھی اننگ میں 300 کا ہندسہ پار کرنا مشکل ضرور ہوتا ہے لیکن ناممکن نہیں۔

پیٹ کمنز کے ذہن میں بھی یہ خدشہ ضرور ہوگا کہ کراچی ٹیسٹ کی چوتھی اننگ میں 400 سے زائد رنز بنانے والی پاکستان ٹیم 351 رنز کا ہدف پارکرلے گی لیکن انہوں نے میچ کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے رسک لینے کا فیصلہ کیا۔ افسوس کہ پاکستان کی طرف سے وہی دفاعی حکمت عملی سامنے آئی۔

اوپنرز کے واپس پویلین لوٹنے کے بعد قومی ٹیم ہدف کے تعاقب کی بجائے میچ ڈرا کروانے کی کوشش میں لگی رہی۔ مخالف ٹیم نے پاکستان کے اس خوف کا فائدہ اٹھاکر کاری وار کیا اور سیریز صرف پاکستانی کھلاڑیوں کے ڈر کی وجہ سے جیت کر تاریخ رقم کردی۔

قومی ٹیم کودیکھیں تو ہمارے کھلاڑی جیت کی بجائے اپنے ذاتی ریکارڈز اور ڈرا کو ذہن میں رکھ کر کھیلتے ہیں۔ کرکٹ کی تاریخ میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کا ایک روزہ میچ آج بھی کرکٹرز کیلئے ایک لازوال مثال ہے جب کینگروز نے 4سو سے زائد کا مجموعہ پہلی بار بورڈ پر سجایا لیکن حیرت کی بات تو یہ کہ چوکرز کہلانے والے پروٹیز نے ہدف سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اسی میچ میں کینگروز کا پہاڑ جیسا ہدف عبور کرکے کرکٹ میں نئی تاریخ رقم کی۔

پاکستان کے کھلاڑیوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے اور ہمارے پاس بیٹنگ اور باؤلنگ میں ایسے نام موجود ہیں جو تن تنہا کسی بھی میچ کا رخ پلٹ سکتے ہیں لیکن ان کھلاڑیوں میں ایک چیز کی کمی ہے وہ ہے ہمت۔ ہمیں کسی بھی کھیل یا کسی بھی میدان میں کامیابی کیلئے جذبہ اور ہمت چاہیے ، اگر آپ ہمت سے کام لیں تو ہار کو جیت میں بدلنا ممکن ہوسکتاہے لیکن اگر ہم صرف جذبہ لیکر میدان میں اتریں اور رسک لینے کی ہمت نہ کریں تو ہار ہی ہمارا مقدر بنے گی۔

Related Posts