لکھنے کا شوق و ذوق

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

صاحب قلم اسے نہیں کہتے جس نے بہت سے مضامین ، مقالے یا کتب لکھ رکھی ہیں۔ یہ جو بعض ماہرین فرما گئے ہیں کہ ہر لکھی عبارت نثر ہوتی ہے۔ یہ لغو بات ہے۔ جس طرح ہر بہتی چیز پانی نہیں ہوتی اسی طرح ہر لکھی چیز بھی نثر نہیں۔

نثر وہی ہے جو شعور کے لئے جواہر قدرت رکھتی ہو۔ صاحب قلم وہ ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نثر لکھنے کی صلاحیت سے آراستہ فرمایا ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں بہت سے اہل علم کو اس بحران کا سامنا رہا ہے کہ وہ اپنا علم تحریری شکل میں نئی نسل کو منتقل کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے پاس قلمی صالاحیت نہیں ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب یہ مضمون یا کتاب لکھتے ہیں تو قاری تک ابلاغ نہیں کر پاتے۔ بالعموم قاری ایسے مصنفین کی عبارات دوسروں کو دکھا کر پوچھتا ہے

“یار مجھے ذرا سمجھا دیجئے کہ مصنف کہنا کیا چاہ رہا ہے ؟”

یہ صورتحال اس لئے پیش آتی ہے کہ موضوع قاری کی دلچسپی کا ہے۔ وہ اسے سیکھنا سمجھنا چاہتا ہے مگر مصنف ابلاغ کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اہل مغرب نے اس کا بہت ہی زبردست حل نکالا ہے۔ چنانچہ وہاں سے ایسی کتب شائع ہونا تقریباً بند ہوگئی ہیں جن کی عبارت نثر نہ ہو۔ حل انہوں نے یہ ڈھونڈا ہے کہ جس کے پاس علم ہے مگر ابلاغی قدرت نہیں، وہ اسے کتاب میں ”پارٹنر“ بنا لیتا ہے جس کے پاس ابلاغ کی صلاحیت ہے۔ اگر ان کے معاملات طے پا جائیں تو پھر دو صورتوں میں کتاب لکھی جاتی ہے۔ یا تو صاحب علم آڈیو ریکارڈنگ کرا دیتا ہے اور یہ کام مہینوں چلتا ہے۔ یا پھر وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی عبارت میں ہی مسودہ لکھ کر پارٹنر رائٹر کے سپرد کر دیتا ہے۔ وہ اس کا جائزہ لے کر فیصلہ کرتا ہے کہ اسی کو ایڈٹ کروں یا اسے از سر نو لکھوں؟ یوں جب یہ کتاب شائع ہوکر آتی ہے تو اس پر صاحب علم کے ساتھ ساتھ ”کو رائٹر“ کا بھی نام ہوتا ہے۔ اور مقدمے میں بتا دیا جاتا ہے کہ ایک کا علم اور دوسرے کی قلمی صلاحیت استعمال ہوئی ہے۔

لیکن اسی ضمن میں ایک ہستی ”گھوسٹ رائٹر“ کی بھی موجود ہے۔ یہ وہاں پایا جاتا ہے جہاں صاحب علم یا صاحب مشاہدہ اپنی کتاب کے ٹائٹل پر دوسرا نام قبول کرنے کو تیار نہ ہو۔ چنانچہ گھوسٹ رائٹر سے کتاب لکھوا لی جاتی ہے۔ اور اسے بہت ہی بھاری فیس دےکر چلتا کردیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ خفیہ قانونی ایگریمنٹ میں یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ وہ کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کرے گا کہ کتاب اس نے لکھی تھی۔ اگر ایسا کیا تو فیس بھی واپس کرنی ہوگی اور ہرجانہ بھی دینا ہوگا۔ اس کھیل میں عام طور پر صاحبِ علم یا صاحب مشاہدہ ذلیل ہی ہوتا ہے۔ مثلاً جنرل مشرف کو ہی لے لیجئے۔ ان کی کتاب گھوسٹ رائٹر نے لکھی ہے اور وہ باور یہ کراتے تھے کہ صرف معلومات، مشاہدات اور تجربات ہی نہیں بلکہ قلم بھی انہی کا استعمال ہوا ہے سو مسلسل شرمندگی کا سامنا کرتے رہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ کتاب کسی گھوسٹ رائٹر نے لکھی ہے؟ تو بات کچھ یوں ہے کہ انسانی ہاتھ کی طرح صاحبِ قلم کی نوکِ قلم کے بھی فنگر پرنٹس ہوتے ہیں۔ اس میدان کے لوگ کسی بھی تحریر کے رائٹر کو بہ آسانی پکڑ لیتے ہیں چاہے تحریر پر اس کا نام نہ بھی ہو۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ انسان کی طرح تحریر کی بھی ایک چال ہوتی ہے۔ جس طرح دور سے آتے شخص کا چہرہ پہچان میں نہ بھی آرہا ہو تو محض چال سے پہچان لیا جاتا ہے۔ اسی طرح عبارت بھی اپنی چال سے بتا دیتی ہے کہ قلم کس کا چلا ہے؟ دنیا داروں کے ہاں تو پھر بھی کچھ انسانیت پائی جاتی ہے۔ وہ گھوسٹ رائٹر سے لکھواتے ہیں تو اسے بھاری معاوضہ بھی دیتے ہیں۔ لیکن جو ظلم شیخ الحدیث اور مہتمم کرتے ہیں اس سے خدا کی پناہ۔ یہ جو آپ بڑے مدارس کے ماہناموں کے اداریوں پر وہاں کے مہتممین کے نام لکھے دیکھتے ہیں ان میں سے 80 فیصد کے ابا حضور  نے بھی کبھی کچھ نہیں لکھا۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے نام سے چھپے یہ اداریئے انہوں نے مطالعہ تک نہیں کئے۔ دیوبندی جرائد میں صرف مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید، مولانا سمیع الحق شہید، مفتی تقی عثمانی ، مولانا محمد اسلم شیخوپوری ،مولانا عبدالقیوم حقانی اور مولانا زاہد الراشدی کے مضامین کی ہی گارنٹی ہے کہ یہ انہوں نے ہی لکھے ہیں۔ ورنہ یہاں تو اس عہد کے ابن حجر بھی دنیا کو دھوکہ دے کر رخصت ہوئے ہیں۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ آپ اداریے پر نام ڈالتے ہی کیوں ہیں؟ اداریے کو اداریہ کہتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ کسی فرد کا نہیں ادارے کا مؤقف ہوتا ہے۔

ہمارے بے حد مہربان استاد حضرت مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہید ہمارے لئے بالکل والد کی طرح سوچتے تھے۔ اس کا اندازہ آپ ایک ہی واقعے سے لگا لیجئے۔ 90 کی دہائی کے آغاز میں ہمارے قلمی کیریئر کا تیسرا سال تھا کہ انہیں یہ فکر لاحق ہوگئی کہ والد اس کے علالت کے باعث تدریس کئی سال قبل چھوڑ چکے۔ بھائی یہ 9 ہیں، کمانے والا 9 میں سے ابھی صرف یہی ہے۔ چنانچہ ہمیں بلا کر فرمایا کہ فلاں جریدے کا اداریہ جو فلاں حضرت کے نام سے شائع ہوتا ہے، وہ میں لکھتا ہوں اور اس کا ایک ہزار روپے معاوضہ ملتا ہے۔ مہینے میں بس ایک تحریر ہی لکھنی ہوتی ہے۔ تم چاہو تو میں ان سے بات کر لیتا ہوں۔ یہ اداریہ تم لکھ لیا کرو، اس سے تمہیں ایک ہزار روپے کی مزید آمدنی ہوجایا کرے گی۔ ہم نے بہت ہی ادب کے ساتھ انکار کیا مگر استادِ محترم سمجھ گئے کہ اسے یہ بات ناگوار بھی لگی ہے۔ چنانچہ حیران ہوکر وجہ دریافت فرمائی۔ ہم نے عرض کیا

“استاد جی ! یہ تو جسم فروشی جیسا کام ہے کہ معاوضہ دو مزے لو۔ کسی کو میں بھی نہ بتاؤں گی اور تم بھی نہ بتانا”

وہ دنگ رہ گئے۔ چند روز بعد سامنا ہوا تو زوردار قہقہ لگا کر فرمایا

”چھوڑ دی میں نے بھی جسم فروشی چھوڑ دی ۔ اللہ کے بندے اس پہلو سے تو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ تمہارے جانے کے بعد غور کیا تو سمجھ آیا کہ یہ تو واقعی حرام اولاد پیدا کرنے جیسی حرکت ہے۔ تحاریر پیداوار آپ کی اور ولدیت کسی اور کی۔“

یہ سارا پس منظر آپ کو یہ بات سمجھانے کے لئے بیان کیا ہے کہ محض خواہش سے آپ صاحبِ قلم نہیں بن سکتے۔ یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو یہ نعمت عطاء کی بھی ہے یا نہیں؟ وہ اپنے ہر بندے کو ایک خاص نعمت سے ضرور نوازتا ہے۔ ممکن ہے آپ کو اس نے کچھ اور عطاء کر رکھا ہو۔ جس طرح ہر شخص حسنِ قرآت نہیں کر سکتا یا گا نہیں سکتا بعینہٖ ہر شخص لکھ بھی نہیں سکتا۔ اگر آپ غور کریں تو جتنے بھی لیجنڈری رائٹرز ہیں ان میں سے 99 فیصد زندگی کے کسی اور شعبے سے اس طرف آئے ہیں۔ مثلاً مشتاق احمد یوسفی اور کرنل محمد خان کو ہی لے لیجئے۔ ایک بینکار تھا اور دوسرا فوجی۔ اس کے برخلاف یونیورسٹی میں اردو بطور مضمون پڑھنے والوں میں سے کتنے ہیں جنہیں ہم بطور رائٹر جانتے ہیں؟ سو وقت ضائع کرنے سے قبل یہ ضرور کنفرم کروا لیجئے کہ یہ نعمت آپ کو میسر ہے بھی یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو پھر جتنا بھی سیکھ لیں، صاحب قلم نہیں بن پائیں گے۔

آپ نے بیشک کوئی باقاعدہ مضمون کبھی نہ لکھا ہو۔ لیکن بھانپنے والا آپ کے چار سطر کے کمنٹ سے ہی بھانپ جائے گا کہ یہ نعمت آپ کو میسر ہے مگر آپ اس سے آگاہ نہیں۔ پچھلے چند سالوں میں فیس بک پر ہی ابھرنے والے تین رائٹرز ایسے ہیں جنہیں ہم نے اس طرف متوجہ کیا تھا کہ آپ رائٹر ہیں، مستقل لکھنا شروع کیجئے۔ نام لینا مناسب نہیں کیونکہ زمانہ بہت ہی عجیب چل رہا ہے۔ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ نام پیدا کرنے کے بعد کبھی ٹی وی انٹرویو کی نوبت آجائے تو کہہ سکیں کہ

”بس جی بچپن سے ہی شوق تھا۔ امی بتاتی ہیں کہ تم نے تین سال کی عمر میں ہی پہلا مضمون لکھ دیا تھا۔ مجھے تو یاد بھی نہیں مگر امی یہی بتاتی ہیں۔ پھر سیلاب آیا تو وہ مضمون بھی اس میں بہہ گیا۔“

Related Posts