وال سٹریٹ کی غلامی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

علم کا انسان کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے غلط اور درست اور حق و باطل کی تمیز میسر آجاتی ہے، چنانچہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جاہل کو تو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے مگر عالم فاضل کو نہیں۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ تعلیم میں مغرب بالعموم اور امریکہ بالخصوص بہت ہی آگے ہے۔ اسی لحاظ سے اپنے ورلڈ ویو کے مطابق وہ اعلٰی درجے کے باشعور سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم امریکہ کی پچھلی سو سالہ سیاسی و عسکری تاریخ کا سرسری جائزہ بھی لیں تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی کہ اس کرہ ارض پر کسی ملک کے شہری اگر اللہ میاں کی گائے ہیں تو وہ امریکہ ہی ہے۔

یہ ملک 245 سال میں 222 چھوٹی بڑی جنگیں لڑ چکا ہے جن میں سے 99 فیصد اسی کی مسلط کردہ تھیں۔ ان عسکری مہمات کے لئے امریکہ کے پاس پہلے دن سے بس ایک ہی گھسا پٹا بہانہ رہا ہے اور وہ یہ کہ ”ہماری سلامتی کو خطرہ ہے“ وہ جب بھی کسی ملک کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرتا ہے، بہانہ ہر بار یہی ہوتا ہے۔ اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے علاوہ اس نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں سب انتہائی کمزور ممالک کے خلاف لڑی ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ویتنام اور افغانستان جیسے پسماندہ ممالک کے ہاتھوں بھی بری طرح شکست سے دوچار ہوا ہے۔ ایسے میں ایک بہت ہی سادہ سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں اتنے ممالک ہیں، ہر دو سال بعد امریکہ کی ہی سلامتی کیوں خطرے میں پڑ جاتی ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ جن ممالک کو امریکہ کے لئے خطرہ بتایا جاتا ہے، ان میں سے کسی کی بھی افواج کبھی امریکی سرحدیں روندتی نظر نہیں آئیں۔ ہر امریکی جنگ امریکی سرحدوں سے ہزاروں کلومیٹر دور ہی کیوں ہوتی ہے؟ مگر کیا یہ دو سوالات کبھی امریکی عوام نے اپنی حکومتوں سے پوچھے؟دنیا کی اس سب سے زیادہ پڑھی لکھی قوم کا شعور ان سوالات کو جنم کیوں نہیں دیتا؟ وہ اپنی حکومت سے کیوں نہیں پوچھتے کہ ان چھوٹے چھوٹے ممالک نے آخر ایسا کیا کیا ہے جس سے لگے کہ انہوں نے امریکہ کی سلامتی کو خطرے میں ڈالدیا ہے؟

ہماری نظر میں اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ ترقی کے لگ بھگ سو برسوں میں امریکی ”سسٹم“ اپنے عوام کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے بڑی کامیابی سے احمق بناتا آیا ہے کہ جو حکومت نے کہا، عوام نے مان لیا۔ مگر اب یہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ یہ صورتحال بدل کیسے رہی ہے؟ اس سوال کی جانب ہم بعد میں آتے ہیں۔ آیئے پہلے یہ سمجھ لیں کہ اپنی عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے وہاں سسٹم کیا ترتیب دیا گیا ہے اور کس نے ترتیب دیا ہے؟

امریکی سسٹم کو سمجھنا کوئی پیچیدہ معاملہ نہیں۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے دوسری جنگِ عظیم کے فوری بعد وجود میں آئی تھی۔ او ایس ایس کے نام سے ایک ایجنسی پہلے سے موجود تھی جسے ختم کرکے دوسری جنگِ عظیم سے حاصل شدہ تجربات کی روشنی میں سی آئی اے تخلیق کی گئی۔ انتہائی قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ ان دونوں ایجنسیوں کی تشکیل میں امریکی سیٹھوں یعنی وال سٹریٹ کا کلیدی رول تھا۔ امریکی سیٹھوں نے دنیا بھر میں اپنے لئے نئے معاشی مفادات پہلے تلاش اور پھر قبضہ کرنے تھے ۔ سو یہ وال سٹریٹ ہی تھی جو سی آئی اے کی تشکیل کی تجویز پیش کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سی آئی اے کا ہمیشہ یا تو ڈائریکٹر وال سٹریٹ سے ہوتا ہے یا ڈپٹی ڈائریکٹر۔ چنانچہ تیل اور معدنیات سمیت ہر طرح کے معاشی مفادات تلاش کرنا اور پھر ان پر قبضے کی سکیم بنانا سی آئی اے کی سب سے اہم ترین ذمہ داری ہے۔ چنانچہ کسی ملک میں تو برسر اقتدار حکومت کا بازو مروڑ کر مفادات حاصل کئے گئے تو کہیں تختہ الٹ کر اور کہیں جنگ مسلط کرکے۔ تینوں ہی صورتوں میں آخری مرحلہ یہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وال سٹریٹ کے سیٹھ ٹارگٹ ملک میں پہنچ جاتے ہیں اور تیل یا جو بھی ہدف ہو وہ امریکی کمپنیوں کے نام ہوجاتا ہے۔

صرف سی آئی اے ہی نہیں امریکہ کا سیاسی نظام بھی انہی سیٹھوں یعنی وال سٹریٹ کی ملکیت ہے۔ چنانچہ امریکہ کا انتخابی نظام ہی دیکھ لیجئے۔ کانگریس سے لے کر صدارتی انتخابات تک آپ کو سب سے پہلے مرحلے پر ”فنڈریزنگ“ مہم ملے گی۔ فنڈز کے بغیر وہاں الیکشن جیتنا محال ہے۔ اور یہ فنڈز وال سٹریٹ کے سیٹھ ہی مہیا کرتے ہیں۔ ذرا سا گوگل کر لیجئے، ساری تفصیل مل جائے گی۔ سو اراکین کانگریس ہوں خواہ امریکی صدر، یہ جب فنڈز کے حصول کے لئے وال سٹریٹ سے رجوع کرتے ہیں تو یہ فنڈز انہیں سیٹھ اپنی شرائط پر دیتے ہیں۔ وال سٹریٹ کے سیٹھوں کو نظر انداز کرکے صدارتی الیکشن جیتنا تو درکنار، لڑنے کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتا۔

اگر آپ یہ سمجھ چکے کہ امریکہ کا سیاسی و انٹیلی جنس نظام کس طرح امریکی سیٹھوں یعنی وال سٹریٹ کی ملکیت ہے تو اب آجایئے تیسرے نکتے کی جانب۔ امریکہ کا پورا مین سٹریم میڈیا، بشمول اخبارات ، ٹی وی چینلز، ہالی ووڈ اور تھیٹرز سب کے سب امریکی سیٹھوں ہی کی ذاتی پراپرٹی ہیں۔ چنانچہ امریکی سیٹھوں کے مفادات کے لئے ہی ان کے فنڈز سے جیتنے والا صدر ہی نہیں انٹیلی جنس نظام بھی فل ٹائم کام کر رہا ہوتا ہے اور امریکی سیٹھوں کی ملکیت میڈیا پر کنگ سائز دانشور و تجزیہ کار امریکی اقدامات کی ”برکات“ سے عوام کو آگاہ کر رہے ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ ہالی ووڈ بھی پابندی کے ساتھ ایسی فلمیں بناتا ہے جس میں امریکی فوج اور انٹیلی جنس افسران کو ”ہیرو“ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ دو چار کو چھوڑ کر امریکہ کا ہر دانشور و ایکٹر درحقیقت وال سٹریٹ کا ہی ”خادم“ ہے۔اور یہ خادمین دن رات اپنے مالکان کے مفادات کے لئے ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔

اس میں تفصیل بہت زیادہ ہے۔معاملہ صرف انٹیلی جنس نظام، سیاسی نظام اور میڈیا تک ہی نہیں بلکہ دیگر شعبوں تک بھی پھیلا ہوا ہے مگر ایک مختصر کالم میں سب کچھ سمیٹنا ممکن نہیں۔ اس لئے ہم نے آپ کو مختصر طور پر تین کلیدی شعبوں سے روشناس کرایا ہے۔

اب آجایئے اس سوال کی جانب کہ یہ سسٹم اب زمیں بوس کیسے ہو رہا ہے؟وال سٹریٹ کے سیٹھوں کا بیڑا سوشل میڈیا غرق کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا سے قبل کے دور میں صورتحال یہ تھی کہ اگر کوئی امریکی دانشور، صحافی یا سیاستدان امریکی نظام کے خلاف جاتا تو اسے میڈیا تک رسائی ہی نہ دی جاتی، سو اس کی آواز قومی سطح پر نہ پھیلتی۔ لیکن جب سوشل میڈیا آیا اور بالخصوص یوٹیوب پر ویلاگز کا سلسلہ شروع ہوا تو ان نظر انداز کئے گئے لوگوں کو اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا پلیٹ فارم میسر آگیا۔

شروع میں سی آئی اے اور این ایس اے بہت خوش تھے کہ اس پلیٹ فارم کو بھی ہم سیٹھوں کا مورچہ بنا لیں گے۔ لیکن 2016ء سے معاملات ان کے قابو سے باہر ہوگئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا تصادم لبرلز اور امریکی اسٹیبلیشمنٹ سے ہوا، سو اس کے پیروکاروں نے سوشل میڈیا کو ہی مورچہ بنا لیا۔ اور اس میں بہت نامی گرامی لوگ شامل ہیں۔ مثلاً ریٹائرڈ ججز، ریٹائرڈ آرمی افسران، ریٹائرڈ اعلٰی سی آئی اے افسران، نامور پروفیسرز، تجزیہ کار، ایکٹرز اور ریٹائرڈ پولیس افسران غرضیکہ ہر شعبے کے لوگ ان میں شامل ہیں۔

اور اس وقت صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ امریکہ کے ہر طرح کے ٹوی چینلز، خواہ وہ نیوز چینلز ہوں یا انٹرٹیمنٹ و انفوٹینمنٹ کے چینلز ان کی مجموعی ویورشپ صرف 32 ملین رہ گئی ہے۔ جبکہ نامور صحافی ٹکر کارلسن نے حال ہی میں روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن کا جو طویل انٹرویو کیا ہے اور جو ٹوئٹر اور یوٹیوب سے نشر ہوا، صرف اس کی ویورشپ ہی ایک ارب کو عبور کرچکی ہے۔ سی این این جیسے ٹاپ نیوز چینل کا یہ حال ہوگیا ہے کہ اس کے ناظرین دو سے تین لاکھ رہ گئے ہیں۔ چنانچہ خبریں آرہی ہیں کہ سی این این کی منیجمنٹ ملینز میں تنخواہ لینے والے اپنے بعض اینکرز کو فارغ کرنے جا رہی ہے۔ صورتحال کی اس ابتری کا رونا ابھی پچھلے ہفتے ہی کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے یوں رویا ہے۔

”ایک وقت تھا جب صرف مین سٹریم میڈیا ہی ہوا کرتا تھا، چینلز سے ایک ہی مؤقف سامنے آتا وہی ”قومی مؤقف“ بن جایا کرتا تھا۔ سب کی ایک ہی سوچ ہوا کرتی تھی۔ سوشل میڈیا نے یہ صورتحال ختم کردی ہے جو پریشانی کی بات ہے۔ اب لوگ اس ایک مؤقف پر نہیں ہوتے جو مین سٹریم میڈیا سے انہیں دیدیا جاتا ہے۔ انہیں اطلاعات اور رائے قائم کرنے کے لئے دیگر ذرائع میسر آگئے ہیں۔“

اگر آپ غور کیجئے تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ جسٹن ٹروڈو درحقیقت اس بات کا ماتم کر رہے ہیں کہ وہ دن ہوا ہوئے جب سیٹھوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے سیٹھوں کا ہی میڈیا کورس میں ایک ہی راگ الاپتا اور وہی پورے مغرب کا ”قومی موقف“ ہوتا۔ اور یہی رائے عامہ ہوتی۔ پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ عوام اپنی بات خود کر رہے ہیں۔ اور اس نئے کلچر نے مین سٹریم میڈیا اور وہاں بیٹھے سیٹھوں کے ملازم دانشوروں کو زمین پر لا پھینکا ہے۔ گویا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اظہارِ رائے کے باب میں پہلی مرتبہ گورے آزاد ہو رہے ہیں۔ اب انہیں وال سٹریٹ کی اطلاعاتی زنجیروں میں جکڑے رکھنا شاید ممکن نہیں رہا۔ خوشی کی بات ہے کہ اب امریکی عوام بھی آزاد ہو رہے ہیں۔وال سٹریٹ کی غلامی سے آزادی !

Related Posts