نظریہ، لبرلزم اور پتلی گلی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

نظریئے کا سفر کتاب سے شرع نہیں ہوتا۔ کتاب اس کا دوسرا پڑاؤ ہے۔ اس سفر کا آغاز ہماری ذات سے ہوتا ہے۔ وہ ذات جو سرشت اور فطرت کے سافٹویئر سے لیس ہوتی ہے مگر ساتھ ہی نفس اور شیطان فطرت کو غلط راہ پر ڈالنے یعنی آپ کی ذات کو تباہ کرنے کے لئے مقابل کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔

انسانی زندگی میں یہ مقابلہ ہوکر رہتا ہے اور اس کا آغاز عین بچپن میں ہوجاتا ہے۔ اس بے آواز مگر گھمسان کی جنگ میں آپ کو ایک شاندار رفیق کی ہمراہی بھی میسر ہوتی ہے۔ ایک ایسا رفیق جو نظر نہیں آتا مگر یہ قدم قدم پر آپ کو درست کی طرف متوجہ کرنے اور غلط پر متنبہ کرنے کا کام دن رات سر انجام دیتا ہے۔ آپ تھک جاتے ہیں مگر یہ نہیں تھکتا، آپ نا امید ہوجاتے ہیں مگر وہ نہیں ہوتا اور آپ شائد ہتھیار ڈالدیں مگر وہ نہیں ڈالتا۔ یہ آپ کے لاشعور سے ہی رشتہ نہیں رکھتا بلکہ آپ کے شعور سے بھی مستقل مخاطب رہتا ہے۔ یہ بے آواز بولتا ہے مگر پھر بھی اس کی گونج آپ کی پوری ذات میں پھیلتی اور سنائی دیتی ہے۔ اپنے اس ہمدرد رفیق کو آپ ”ضمیر“ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کی سب سے شاندار خوبی یہ ہے کہ یہ صرف درست اور سچ بولتا ہے۔ اگر اوائل عمری میں ہی آپ اس کی جانب مکمل طور پر متوجہ ہوجائیں تو یہ قوت پکڑتا جاتا ہے اور پھر وہ دن آپ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جب بھی آپ ڈگمگانے لگتے ہیں، کوئی آپ کا بازو پکڑنے کو موجود ہوتا ہے۔ ان واقعات کی کثرت آپ کا عقیدہ بنادیتی ہے کہ آپ کو تائیدِ غیبی یا نصرتِ غیبی میسر ہے۔ تائیدِ غیبی یا نصرتِ غیبی سچوں کو میسر آتی ہے اور سب سے بڑا سچا وہ ہے جو اپنی ذات کے اندر بیٹھے اس سچے کو اہمیت دے اور اس کی رہنمائی کو مقدم جانے۔ اگر اپنی ذات میں گونجتی اس سچائی کو آپ مسلسل نظر انداز کریں تو مت بھولیں کہ سرشت کے ہوتے نفس اور شیطان سے ہارنے والے ہر دور میں اکثریت میں دیکھے گئے ہیں۔

اگر کتاب سے قبل اپنی ذات کے اس مرحلے میں ضمیر کی مشاورت پر قدم اٹھانے شروع کردیئے جائیں تو رفتہ رفتہ وہ شخصیت تعمیر ہونا شروع ہوجاتی ہے جسے کتاب والے مرحلے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ تب کتابی سفر کے دوران بلند قامت و عجیب الخیال لوگ آپ کو حیران نہیں کر پاتے۔ نظریاتی سفر میں کتابی مرحلے میں ”حیرت“ ہی سب سے خطرناک چیز ہے۔ یہ حیرت ہی ہوتی ہے جو کسی بھی عجیب فکری تصور کے ساتھ آپ کو باندھ دیتی ہے اور آپ اس کے درست یا غلط کا تجزیہ کئے بغیر ہی اس کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ حیرت کے یہ مقام نوجوانی میں آتے ہیں۔ مگر بری بات یہ ہے کہ جب آپ ان تحیرات کو بطور نظریہ پیش کرنا شروع کردیتے ہیں تو جلد وہ دن آ کر رہتا ہے جب آپ پر انکشاف ہوتا ہے کہ محض نوعمری کے سبب آپ ایک غلط تصور سے متاثر ہو گئے تھے۔ اور اس حد تک ہوگئے تھے کہ خود کو ایک نظریاتی شخص سمجھ کر اس لغو تصور کو بطور نظریہ پیش بھی کرنے لگے۔ یہاں خطرناک بات یہ ہوجاتی ہے کہ آپ کو ضمیر کی آواز پر کان دھرنے کی عادت نہیں، سو نفس اور شیطان آپ کے لئے غلطی کا اعتراف مشکل بنا دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو اوائلِ عمری سے ہی ضمیر کی سنتے آتے ہیں، وہ اوّل تو کسی کتابی خیال سے حیران ہوکر اس سے فوراً چپکتے نہیں۔وہ ان رنگا رنگ تصورات سے کچھ لمحوں کا سرور ضرور حاصل کرتے ہیں لیکن انہیں اس وقت تک اختیار نہیں کرتے جب تک اس کا خوب خوب تجزیہ نہ کر لیں اور اس تجزیئے میں بسا اوقات عمر عزیز ہی تمام کر دیتے ہیں۔ اگر بالفرض وہ حیران ہو بھی جائیں اور وہی حرکت کر بھی ڈالیں جو آپ نے کی، تو زندگی کے جس موڑ پر بھی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجائے، وہ اسی لمحے ”رجوع“ کر لیتے ہیں اور ایسا بہت ہی آسانی سے وہ اس لئے کر پاتے ہیں کہ انہیں بچپن سے ہی سچ کی اطاعت کی عادت ہوتی ہے۔ انہوں نے باہر کے سچ سے بھی قبل اپنے اندر کی سچائیوں کو قبول کرنے کی جو عادت ڈالی تھی وہ اب نہ صرف کتابی مرحلے میں بھی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے، بلکہ جب نظریاتی زندگی کا وہ تیسرا اور فیصلہ کن مرحلہ آتا ہے جسے ہم عملی زندگی کے نام سے جانتے ہیں تو ایسے لوگ سچائی کے لئے اپنا تن، من، دھن قربان کر دیتے ہیں۔ ان کی قربانیاں دیکھ کر دنیا کو حیرت ہوتی ہے کہ اس انسان نے ایسی لازوال قربانیاں کس مشکل سے دی ہونگی اور ان مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہ کیسے کیسے کرب سے نہ گزرا ہوگا مگر دنیا جانتی ہی نہیں کہ یہ قربانیاں اس نے اسی بے تکلفی اور آسانی سے دی ہوتی ہیں جس بے تکلفی و آسانی سے پانی کا جام پیا جاتا ہے۔ ایک خالص نظریاتی شخص کے لئے یہ قربانیاں نہایت ہی سہل ہوتی ہیں۔ اس کے نزدیک یہ اس کی بہت سی لازمی ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری ہی ہے۔ ورنہ وہ بھی جانتا ہے کہ اذیت سے بچنا ایک ایسا آپشن ہے جو ہفتے کے سات دن اور دن کے چوبیس گھنٹے میسر رہتا ہے۔ جسے سچائی کا نشہ لگ جائے وہ فنا اور بقاء سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ جیل کی سلاخیں، کوڑے کی تاب اور تلوار کی دھار اس کے لئے نتائجِ فکر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ کسی نظریاتی شخص کی سب سے بڑی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ بے خوف ہوتا ہے۔ اگر بے خوف نہیں تو سقراط ہی کیوں نہ ہو، وہ نظریاتی شخص نہیں ہو سکتا۔

پاکستان میں نظریہ اور نظریاتی سفر دم توڑ چکا۔ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں اب سوچنا، پڑھنا اور کرنا سب کمرشل ہو چکا۔ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ ہمارے ملک میں ہم دانشوروں کی وہ فوج دیکھا کرتے جو کمیونزم کا پرچار کیا کرتی۔ وہ لوگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ وطنِ عزیز میں اگر کوئی ”نظریاتی“ ہے تو بس وہی ہیں لیکن جوں ہی سوویت یونین ٹوٹا، کمیونزم بھی ساتھ ہی یتیم ہوگیا۔ کیونکہ اس کی دعوت دینے والے کسی اور منڈی کے ہوگئے۔ وہ نظریاتی کمیونسٹ ہوتے تو ایسا نہ ہوتا بلکہ وہ کہتے کہ کمیونزم بطور نظریہ اب بھی موجود ہے اور ہم اس کے لئے لڑنے مرنے کو اب بھی تیار ہیں۔ مگر ایسا نہ ہوا کیونکہ وہ نظریاتی نہ تھے بلکہ بریڈ اینڈ بٹر کی جنگ لڑ رہے تھے۔ آج کی تاریخ میں دانشوروں کی وہی قسم لبرلزم کا سودہ بیچ رہی ہے اور انہیں اصرار ہے کہ بریڈ اینڈ بٹر کی اس جد و جہد کو نظریئے کی خدمت کی نظر سے دیکھا جائے۔ اس مکمل کمرشل صورتحال میں یہ طے سمجھئے کہ جس پتلی گلی سے کمیونزم کی تجارت کرنے والے عنقا ہوئے تھے وہی پتلی گلی لبرلزم کی تجارت کرنے والوں کے بھی کام آئے گی۔ شاید ان کی کوتاہ بینی کے سبب یہ دیکھ نہ پا رہے ہوں مگر اس پتلی گلی کا خارجی راستہ کھل چکا۔ یوکرین میں نوشتہ دیوار پڑھ کر اب عالمی لبرل یہی لکھ رہے ہیں کہ اس شکست کے بعد دنیا ہماری باتوں پر کان دھرنا چھوڑ دے گی۔ اور ہم جبراً بھی ایسا نہیں کر پائیں گے۔ دنیا نے ہمارے تقاضوں کے جواب میں چٹے انکار پہلے ہی اختیار کر لئے ہیں۔

Related Posts