بابراعظم کراچی کنگز کی شکست کے کتنے ذمہ دار؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پی ایس ایل پاکستان کا ایک بڑا برانڈ بن چکا ہے اور دنیا بھر میں اس وقت پاکستان سپر لیگ کا ڈنکا بج رہا ہے۔پوری دنیا پی ایس ایل کو دنیائے کرکٹ کی بڑی لیگز میں شمار کررہی ہے ۔ پی ایس ایل میں شامل تمام ٹیمیں بلاشبہ قابل تعریف ہیں۔

جہاں تک کراچی کنگز کی بات ہے تو اگر ہم پی ایس ایل کے گزشتہ 6 سیزن دیکھیں تو یہ ٹیم کسی نہ کسی دوسرے مرحلے میں ضرور پہنچ جاتی ہے جبکہ ایک بار پی ایس ایل چمپئن کا اعزاز بھی کراچی کنگز کو مل چکا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کرکٹ کو ہمیشہ ناممکنات کا کھیل سمجھا جاتا ہے جس میں کبھی بھی کسی ایک ٹیم کیلئے حتمی پیش گوئی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کبھی آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم باآسانی ڈھیر ہوتے ہوئے بھی ہم نے دیکھا اور بنگلہ دیش جیسی نوآموز ٹیم کو سیریز جیتتے ہوئے بھی دنیا دیکھ چکی ہے اور یہی وجہ ہے کرکٹ میں کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹ جاتا ہے۔

حالیہ پاکستان سپر لیگ میں کراچی کنگز کی 5 مسلسل شکستوں کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے ٹیم کو دیکھا جائے تو بیٹنگ کے شعبہ میں ٹیم کو بابر اعظم کے علاوہ کوئی عالمی سطح کا نامور بلے باز نہیں مل سکا جبکہ مدمقابل تمام ٹیموں کے پاس بڑے بڑے نام موجود ہیں۔ کراچی کنگز کے پاس صرف انگلش بلے باز جوئے کلارک ہی ایک ایسا بیٹر ہے جو حالیہ بگ بیش لیگ میں شاندار کھیل کا مظاہرہ کرکے کراچی کنگز کا حصہ بنے۔

کسی بھی کھلاڑی کیلئے جگہ ، موسم اور وکٹ سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور جوئے کلارک چونکہ پہلی بار پاکستان آئے تو انہیں یہاں کی مقامی کنڈیشنز میں ایڈجسٹ ہونے میں شدید مشکلات درپیش رہیں اور نتیجتاً وہ اپنی مکمل صلاحیتوں کے اظہار میں ناکام رہے۔

جوئے کلارک کے علاوہ کراچی کنگز کو لوئس گریگوری کی خدمات حاصل رہیں جن کو بابر اعظم نے خود اپنی ٹیم کا حصہ بنایا کیونکہ قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم سمرسٹ میں لوئس گریگوری کے ساتھ کھیل چکے ہیں اور انہیں لوئس گریگوری کی صلاحیتوں پر بھروسہ تھا اسی لئے انہیں کراچی کنگز کا حصہ بنایا تاہم لوئس گریگوری بھی کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ٹی ٹوئنٹی میں باؤلنگ آل راؤنڈر سے زیادہ بیٹنگ آل راؤنڈر کی قدر ہوتی ہے تاہم کراچی کنگز کی ٹیم لوئس گریگوری کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی۔

اگر ہم کرس جارڈن کی بات کریں تو ان کا تعلق بھی انگلستان سے ہے ۔ کرس جارڈن ٹی ٹوئنٹی کے بلاشبہ ایک اچھے گیند باز ہیں لیکن انہیں صرف دو میچ کھیلنے کو ملے ہیں اس لئے ان کی کارکردگی پر سوال اٹھانا مناسب نہیں ہے۔

محمد عامر کو کراچی کنگز کا اہم ستون کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، محمد عامر پہلے سیزن سے کراچی کنگز کا حصہ ہیں اور کراچی کنگز کی کامیابیوں میں ان کا نمایاں کردار رہا ہے لیکن شومئی قسمت کہ کپتان بابر اعظم کو حالیہ سیزن میں جادوئی گیندباز محمد عامر کا ساتھ حاصل نہیں ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ کراچی کنگز کی باؤلنگ لائن پہلے میچ سے ہی کمزور دکھائی دی ۔

کراچی کنگز کی بدقسمتی کہ پہلے دو میچوں میں سابق کپتان عماد وسیم بھی ٹیم کا حصہ نہیں تھے جن کی قیادت میں گزشتہ 6 سیزن میں کراچی کنگز بہتر کھیل کا مظاہرہ کرتی آئی ہے۔اب اگر ہم کراچی کنگز کے مقامی کھلاڑیوں کی بات کریں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ شرجیل خان ایک بہترین کھلاڑی ہیں اور پہلے میچ میں انہوں نے ملتان سلطان کیخلاف اچھی اننگ کھیل کر شاندار آغاز کیا لیکن بعد میں وہ رنز کرنے میں ناکام رہے۔

صاحبزادہ فرحان حالیہ ڈومیسٹک سیزن میں پاکستان کے ٹاپ اسکورر تھے ، یہ بھی ایک اچھا انتخاب تھے لیکن ڈومیسٹک سیزن کے برعکس پی ایس ایل میں اپنا رنگ نہ جماسکے۔

مقامی باؤلرز کی بات کی جائے تو کراچی کنگز میں عامر یامین، عمید آصف، محمدالیاس جیسے باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں لیکن یہاں بھی محمد عامر کی غیر حاضری نمایاں  رہی کیونکہ جب تک باؤلنگ لائن میں بڑا نام نہ ہوتو دیگر کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بھی نمایاں فرق آتا ہے۔

ایمرجنگ کھلاڑیوں پر نظر ڈالیں تو ہم نے دیکھا کہ پی ایس ایل میں ہر سیزن میں کوئی نہ کوئی نیا نوجوان ابھر کر سامنے آتا ہے جو پی ایس ایل میں اپنی دھاک بٹھاکر قومی ٹیم تک راہ بنالیتا ہے۔

اس بار کراچی کنگز کو محمد طٰحٰہ اور روحیل نذیر کی صورت میں دو ایمرجنگ پلیئر ملے جن میں سے محمد طٰحٰہ نے اب تک پانچوں میچز کھیلے اور بیٹنگ آل راؤنڈر محمد طٰحٰہ ایک باصلاحیت بیٹر ہیں لیکن جب ایمرجنگ کھلاڑی کی بات ہوتی ہے تو اس کے استعمال کی ذمہ داری کپتان پر عائد ہوتی ہے۔

یہ وہی محمد طٰحٰہ ہیں جنہوں نے حالیہ ڈومیسٹک میچ میں سندھ کی ٹیم کو اپنی بیٹنگ کی بدولت تن تنہا میچ میں فتح دلوائی تھی اور یہ نوجوان پاکستان انڈر19 میں بھی قومی ٹیم کی نمائندگی کرچکا ہے۔محمد طٰحٰہ کو ایک میچ میں غلطی کی وجہ سے آخری نمبروں پر کھلایا جارہا ہے جس کی وجہ سے انہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہیں مل رہا۔

یہ درست ہے کہ آپ غلطی کرنے اور کپتان کی ہدایت نظرانداز کرنے والے کھلاڑی کو تنبیہ ضرور کریں لیکن جہاں ٹیم کو ضرورت ہو وہاں اس کھلاڑی کا استعمال بھی کریں تاکہ اس کو اپنی غلطی کو سدھارنے کا موقع مل سکے۔

کراچی کی شکست کو اگر صرف بابر اعظم پر ڈالیں تو بھی زیادتی ہوگی کیونکہ کسی بھی ٹیم کی فتح اور شکست میں ہیڈ کوچ اور کپتان کے ساتھ تمام مینجمنٹ برابر کی ذمہ دار ہوتی ہے تو کراچی کنگز کے وسیم اکرم بھی کہیں نہ کہیں اس ہار کے ذمہ دار ہیں ایسے میں فرنچائز اونر کا اس ہار جیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

کراچی کنگز عددی اعتبارسے دیگر ٹیموں کے مقابلے میں کمزور ہے اور اب اگر اس ٹیم کو واپس پی ایس ایل میں آنا ہے تو کچھ نہیں بلکہ بہت زیادہ الگ کھیل دکھانا ہوگا ورنہ کراچی کنگز کیلئے سیزن سیون کا سفر اختتام پذیر ہے۔

Related Posts