غلط اندازہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

صفِ اوّل کی وہ ٹی وی اداکارہ و ماڈل گھر سے سٹوڈیو جاتے ہوئے کلفٹن کی ایسی سڑک پر نکل آئی تھی جس پر مسجد واقع تھی۔ جمعے کا دن ہی نہیں، وقت بھی تھا۔ سو سڑک کشادہ ہونے کے باوجود عین مسجد کے سامنے پارکنگ کے سبب بلاک تھی۔

مسجد سے وعظ کی خفیف سی آواز اس تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے کار کا اپنی جانب کا شیشہ نیچے کرلیا کہ کچھ لمحے سن کر تو دیکھیں مولوی کہہ کیا رہا ہے۔ مگر ڈرائیور نے گاڑی موڑ لی ۔

“شیر رحمٰن ! دو منٹ رکو”

ڈرائیور نے گاڑی روک لی۔ اپنی میڈم کو وعظ سنتا دیکھ کر شیر رحمٰن کی آنکھیں بھرآئی تھیں کہ بالآخر میڈم کی ہدایت کا لمحہ بھی آ پہنچا۔ خطیب کہہ رہا تھا:

”دنیا و آخرت کی عزت صرف دین پر عمل میں ہے۔ دین پر عمل نہ ہو تو مال و دولت فواحش کے اسباب کے سوا کچھ نہیں“

ماہ تاج کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ اس نے ڈرائیور سے کہا:

“شیر رحمن، نکلو یہاں سے”

وہ سمجھ نہیں پایا کہ میڈم کو اچانک کچھ یاد آگیا، یا وہ مولوی صاحب کی بات سے بدمزہ ہوئیں؟ سو اس نے پوچھ ہی لیا

“میڈم صیب ! مولَوی صیب کیا بول رہا تھا”

“شیر رحمن ! یہ لوگ پاگل ہیں۔ انہیں لگتا ہے عزت نمازیں پڑھنے سے ملتی ہے۔ عزت سٹیٹس کو کہتے ہیں اور سٹیٹس پیسے سے بنتا ہے۔ اور یہ جو فحش اور فحاشی جیسے لفظ ہیں یہ تو ہر ملا کی زبان پر ہوتے ہیں۔ یہ ٹی وی ڈراموں کو فحاشی کہتے ہیں۔ کیا ڈرامے میں کام کرنا فحاشی ہے ؟ دماغ خراب ہے ان لوگوں کا۔”

شیر رحمن کے چہرے کی مایوسی سے واضح تھا کہ ہدایت کے لمحے سے متعلق اس نے غلط اندازہ لگا رکھا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کا آخری پہر تھا۔ ماہ تاج سیون سٹار ہوٹل کے لگژری کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی بال سنوار رہی تھی کہ اچانک اسے کچھ یاد آیا۔ اس نے پلٹ کر بیڈ پر اوندھے منہ پڑے داؤد سیٹھ سے کہا۔

“۔سیٹھ ! ایک انکم ٹیکس افسر میرے پیچھے پڑ گیا ہے۔ اس سے میری جان تو چھڑا دو”

“ہم کیسے جان چھڑا دیوے؟ ہم اس کا باپ ہوں کیا؟”

میمن سیٹھ نے جان چھڑاتے ہوئے کہا۔ مگر ماہ تاج جان چھوڑنے والی نہ تھی۔ وہ بیڈ پر آئی اور اس کے ٹنڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔

“سیٹھ تم کو اللہ نے بہت عزت دی ہے۔ لوگ تمہاری سنتے بھی ہیں، اور مانتے بھی ہیں”

یہ سن کر داؤد سیٹھ کا قہقہ چھوٹ گیا۔

“اس میں ہنسنے والی کیا بات ؟”

ماہ تاج نے پوچھا۔

“تو ٹھیک بولتی ہے۔ بات تو رونے والی ہے پر ہم ہنس رہا ہے”

“میں سمجھی نہیں”

“دیکھ اگر میں عزت والا ہوتا تو تیرے ساتھ اس کمرے میں ہوتا؟”

ماہ تاج ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے سیٹھ کو گھورتے ہوئے پوچھا۔

“کیا مطلب ہے اس بات کا؟ میرے ساتھ تو ہوتے ہی وہ لوگ ہیں جن کی معاشرے میں بہت عزت ہے۔ کیا مجھ سے ملنے سے عزت ختم ہوجاتی ہے؟ کیا میں عزت ختم کرنے والا وائرس ہوں؟””

“دیکھ تیری تو خود سوچ۔ میں میمن آدمی ہے، میمن صرف اپنا سوچتا ہے”

“سیٹھ ! تم نے کہا کہ اگر میں عزت والا ہوتا تو تمہارے ساتھ اس کمرے میں ہوتا؟ اس کا یہی مطلب ہوا نا کہ میرا عزت سے کوئی لینا دینا نہیں””

“تو میرے کو ایک بات بتا !”

“کیا؟”

“عزت کون دیتا ہے؟”

“خدا دیتا ہے”

“کس کو دیتا ہے؟”

ماہ تاج جواب دینے کی بجائے خاموش رہی، مگر سیٹھ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس کی اپنی آنکھیں سوالیہ تھیں۔ سو داؤد سیٹھ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:

“اسی کو دیتا ہے جو اس کی مانتا ہے۔ اب تو بتا میں اور تو اس کی مانتے تو یہاں ہوتے؟”

“تو پھر سٹیٹس کیا ہوتا ہے؟ وہ جو لوگ ہم سے آٹو گراف لیتے ہیں وہ کیا ہوتا ہے؟ کمروں میں جو ہماری تصاویر لگا رکھی ہوتی ہیں وہ کیا ہے؟”

“تو کس دنیا میں رہتی ہے؟ سٹیٹس امیروں کے نخرے کو بولتے ہیں۔ جو پیسے سے ملتا ہے۔ تیرے کو کیا لگتا ہے، گیٹ پر کھڑا دربان تیرے لئے اس لئے گیٹ کھولتا ہے کہ تیری عزت کرتا ہے؟ وہ سٹیٹس کی وجہ سے کھولتا ہے۔ جب تو گزر جاتی ہے تو پیچھے سے تجھے موٹی سی گالی بھی دیتا ہے۔ جب کوئی عزت کی وجہ سے دروازہ کھولتا ہےتو گالی نہیں دیتا۔”

“وہ تمہارے لئے بھی گیٹ کھولتا ہے۔”

“ہاں تو میرے کو بھی پیچھے سے گالی ہی دیتا ہے نا، میرے کو کاروبار میں ترقی کی دعاء تھوڑی نا دیتا ہے۔”

“اور وہ آٹو گراف اور تصویریں ؟”

“تیری تصویر وہ کہاں لگاتے ہیں؟”

“ہر جگہ لگاتے ہیں، ڈیسک ٹاپ پر لگاتے ہیں، کمرے میں لگاتے ہیں۔”

“سیدھی بات کر نا۔ تو بھی جانتی ہے کہ وہ تیری تصویر بیڈ روم میں لگاتے ہیں۔ وہ ڈرائنگ روم میں کیوں نہیں لگاتے؟ اور کسی بھلے آدمی کو آتا دیکھ کر وہ جلدی سے کمپیوٹر کا مانیٹر کیوں آف کر لیتے ہیں؟”

“بل شٹ۔ اگر ایسا ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔”

“دیکھ جوانی میں ریکھا کی تصویریں اپن نے بھی کمرے میں لگا رکھی تھیں۔ ابھی میں تیرے کو بتاوے کیا کہ اپن اس کو دیکھ کر کیا کیا سوچتا اور کرتا تھا؟ ہم اس کی عزت نہیں کرتا تھا، بلکہ ۔۔۔۔۔۔”

“کچھ بھی ؟ بس کچھ بھی؟”

ماہ تاج نے کھوکھلے سے لہجے میں بس اتنا ہی کہا اور گہری سوچ میں چلی گئی۔ وہ جتنا سوچتی گئی، بے چین ہوتی گئی۔ اس نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کی بوتل اٹھائی اور پوری پی گئی۔ مگر بات بنی نہیں۔ اس کے دل و دماغ آندھی کی زد میں آچکے تھے۔ اور وہ شاید اس آندھی کی راہ سے ہٹنے کے لئے ہی صوفے پر جا بیٹھی۔ اسے بغور دیکھتے داؤد سیٹھ نے سیگریٹ سلگائی تو اس نے بھی اٹھ کر اپنے بیگ سے چرس بھری سیگریٹ نکال کر سلگا لی۔ مگر دوسرے ہی کش پر اس نے گھور کر سیگریٹ کو دیکھا اور اسے ایش ٹرے میں مسل دیا۔ وہ وہاں سے بھی اٹھی اور کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ اس کی خالی آنکھیں بہت دیر اکا دکا گزرتی گاڑیوں کو دیکھتی رہیں، مگر اس کے دل و دماغ آتی جاتی گاڑیوں کی جانب متوجہ نہ ہوسکے۔ پھر وہ پلٹی اور ڈریسنگ ٹیبل پر جا کھڑی ہوئی۔ اس نے قد آدم آئینے میں خود کو بغور دیکھا مگر اس کی آنکھوں کے تاثر سے صاف ظاہر تھا کہ وہ خود کو پہچاننے کی کوشش کے باوجود نہ پہچان سکی۔ پھر وہ اچانک وہاں سے پلٹی۔ اپنا بیگ اٹھایا اور دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے داؤد سیٹھ کو دیکھے بنا بس اتنا کہا۔

“میں گھر جا رہی ہوں۔”

اس کی گاڑی گھر پہنچی تو شیر رحمٰن اور خانساماں فجر کی نماز کے لئے نکل رہے تھے۔ چوکیدار نے پھاٹک کھول دیا۔ ماہ تاج پورچ میں اتر کر اندر جا چکی تو پھاٹک پر کچھ دیر کو رکے شیر رحمٰن اور خانساماں نے بھی مسجد کی جانب قدم بڑھا دیئے۔ اچانک شیر رحمٰن نے خانساماں سے کہا۔

“تم جانتا اے بیگم صیب اس وقت کدھر سے آتا ہے؟ خودئی کا کوئی خوف نئیں”

“شیر رحمن نے اس کی ہدایت کے لمحے سے متعلق ایک بار پھر غلط اندازہ لگا لیا تھا !”

Related Posts