انصاف کے طالب منصف

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

چیف جسٹس سپریم کورٹ،اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت کئی ججوں کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے ہیں، یہ خطوط ایک فرضی خاتون کی طرف سے تمام ججوں کے نام بہ ذریعہ ڈاک روانہ کیے گئے ہیں ہر لفافے میں دھمکی آمیز پیغام کے ساتھ زہریلے سفوف بھی ہیں جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ خطرناک اینتھریکس پاؤڈر ہو سکتا ہے۔

تمام ججوں پر دھمکی آمیز خط ایسے پس منظر میں موصول ہوئے ہیں جب 6 ججوں نے سپریم جیوڈیشل کونسل کو مشترکہ طور پر ایک خط تحریر کیا تھا، جس میں عدلیہ کے اعلیٰ ترین ادارے سے درخواست کی تھی کہ ججوں کو حکومت کے ایما پر خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جانب سے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

عدالتی امور میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت اور دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے رہنمائی طلب کی گئی تھی، یہ خط عدالت عالیہ اسلام آباد کے 8 ججوں میں سے 6 ججوں نے مشترکہ طور پر لکھا تھا اس خط میں متعینہ طور پر واقعات بیان کیے گئے تھے جس میں سال بھر میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس کو لکھے گئے خطوط کا حوالہ بھی دیا گیا تھا، اب عدلیہ پر یہ بوجھ بھی آگیا ہے کہ وہ اس بات کی تفتیش کرائیں کہ ججوں کو دھمکی دینے والے عناصر کون ہیں؟ ۔

قانون اور دلیل کے ذریعے عدلیہ سے انصاف لیا جاتا ہے، عوامی طاقت کے غلط استعمال اور دھمکیوں سے مرضی کا فیصلہ نہیں لیا جاسکتا، فی الحال عدلیہ کو ملنے والے خطوط اور دھمکیوں کی تحقیقات کا ہونا ضروری ہے ہم نے تو پڑھابھی ہے سنا بھی ہے اور دیکھا بھی ہے کہ جب کبھی بھی اعلیٰ عدلیہ نے اپنا اختیار جتانے کی کوشش کی تو اسے حکومت کی جانب سے سخت ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرفوجی دور کی بات ہو توکسی بھی فوجی حکومت میں جو پہلا کام کیا جاتارہا وہ اعلیٰ عدلیہ میں اکھاڑ پچھاڑ ہوتاتھا تاکہ کوئی بھی قانونی رکاوٹ ہو بھی تو دور کردی جائے۔

یعنی ماضی میں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ملٹری ڈکٹیٹرز اسی طرح سپریم کورٹ سے اپنی حکومت کے لیے جواز حاصل کیا کرتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انصاف کی فراہمی اور شفاف ٹرائل یقینی بنانے کے لیے موجودہ عدالتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عدلیہ کو سیاست میں اترنے اور جج صاحبان کو عوامی بحث کا حصہ بننے سے بچنا چاہیے ماضی میں ن لیگ کی حکومت یعنی نواز شریف کی عدلیہ مخالف تحریک کی بنیاد سیاسی اور مفاد پرستی پر مبنی رہی ہے۔

وہ اصلاحات اس لیے نہیں چاہتے تاکہ عدالتیں آزاد ہوں، بلکہ اس لیے تاکہ وہ ان کے حکم کے تابع ہوجائیں اور ویسے آج نواز شریف وزیراعظم تو نہیں ہیں مگر حکم نامہ کس کا چلتاہے یہ آپ سب جانتے ہیں۔ ماضی میں عدلیہ کے خلاف مسلم لیگ (ن) کا رویہ بہت ہی غیر ذمہ دارانہ رہاہے تاریخ گواہ ہے کہ ن لیگ کا نام عدلیہ پر حملوں کے باعث کس قدربدنام ہے طیارہ سازش کیس ہو پانامہ کا کیس ہو یا مشرف کا دور ہو 1997 ہو یا 2018 عدالت اعظمیٰ کی جانب سے نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کی رہنماؤں کے عدلیہ مخالف بیانات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

نواز شریف کا لہجہ سپریم کورٹ کے لیے ہمیشہ سے ہی باغیانہ رہاہے ان کی بیٹی تو اپنے بیانات میں نواز شریف سے بھی کہیں زیادہ تلخ ثابت ہوئی ہیں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے اپنی جذباتی تقریر میں دھمکی دی تھی کہ پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی، آج ججز کا معاملہ غیر جمہوری روایات کے تسلسل کا نتیجہ ہے عوام کسی معاملے میں کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں وہ ایک زندہ لاش بنی ہوئی ہے ایسے ملک کے حالات ہیں، جسے بہت گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔

آج پاکستان کے سامنے چیلنجوں کا ایک پہاڑ ہے اور ہر مسئلہ ملک کے لئے عذاب بنا ہوا ہے۔ ہم 25 کروڑ پاکستانی مقروض، معاشی بے حالی کا شکار، خودمختار ہونے کے باوجود اقتصادی طور پر محتاج، معاشی قید میں ہیں یہ ملک چاروں طرف سازشوں میں گھراہواہے کچھ محفوظ نہیں ہے چھینا جھپٹی لوٹ مار کرنے والے مزے کررہے ہیں۔

اگر جج دیانتدار و محنتی ہے اور وہ عوام کی امنگوں کے مطابق انصاف دینا بھی چاہتا ہے تو اس کا عملہ اس قدر کرپٹ اور متحد ہے کہ اسے چلنے ہی نہیں دیتا‘ یہی وجہ ہے کہ اب عوام کو بروقت انصاف ملنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔عام عوام مررہی ہے جبکہ ججز کے گھروں سے خفیہ کیمرے برآمد ہورہے ہیں کیا یہ کیمرے کوئی عام آدمی لگا سکتا ہے؟ یقینی طور یہ وہ ہی کرسکتاہے جو عدلیہ سے زیادہ طاقتور ہو یہ بات قابل تعریف ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان اس ظالمانہ نظام کے خلاف ڈٹ گئے ہیں۔

دوسراسوال یہ ہے کہ حکومت کیا کرے تو جواب یہ ہے کہ جو حکومت خود خفیہ ایجنسی کی الیکشن انجینئرنگ سے وجود میں آئی ہو وہ اس کے خلاف کیسے منصفانہ تحقیقات کراسکتی ہے اس وقت خفیہ ایجنسیوں کی عدلیہ کے امور میں مداخلت کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان کے نام اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کا خط پورے ملک میں زیر بحث ہے پاکستان میں عام آدمی کے لیے انصاف کی دستیابی کا اندازہ اس کیس سے لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کو انصاف دینے کے ذمے دار خود انصاف اور تحفظ کے لیے در در جانے پر مجبور ہیں۔

بقول قتیل شفائی:
کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک
جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے
جس میں غلے کے نگہباں ہیں وہ گیدڑ جن سے
قحط و افلاس کے بھوتوں نے اماں چاہی ہے۔

Related Posts