اسرائیل کو میچ فکسنگ میں بھی شکست

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کے آخری پہر بین الاقوامی میڈیا پر خبر بریک ہوئی کہ ایران نے اسرائیل پر حملہ شروع کردیا ہے۔ پچھلے پینتیس سال سے ہم جنگیں دیکھتے اور ان کا تجزیہ کرتے آرہے ہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اب تو ابتدائی درجے کی سطحی نظر میں ہی بھانپ جاتے ہیں کہ معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے یا محض دھول اڑائی جا رہی ہے۔

الجزیرہ سمیت تمام بڑے نیوز چینلز اسرائیل کے فضائی مناظر لائیو دکھا رہے تھے۔ ان مناظر میں اسرائیل کا آئرن ڈوم ایئرڈیفنس سسٹم ایکشن میں تھا مگر کیفیت محض ہوائی فائرنگ جیسی تھی۔ آئرن ڈوم کے راکٹ فضاء میں کسی چیزسے ٹکرا نہیں رہے تھے اور نہ ہی آئرن ڈوم کے راکٹوں کی روشنی کے سوا فضاء میں کچھ تھا۔

کچھ وقت گزرا تو الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ حملے کے لئے ایران نے شاہد ڈرون استعمال کئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اسرائیل کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوسکا۔ سب کے سب اسرائیل کی فضائی حدود کے باہر ہی امریکی ایئرڈیفنس سسٹم نے مار گرائے ہیں۔ سو ہم سمجھ گئے کہ ہمارا اندازہ درست ہے۔ اور یہ میچ فکسڈ ہے۔

ایران کے اس حملے کی نوبت یوں آئی تھی کہ اسرائیل نے 2 اپریل کو دمشق میں واقع ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کرکے کئی افراد کی جان لی تھی۔ مارے جانے والوں میں ایک اعلٰی ایرانی کمانڈر بھی شامل بتایا گیا تھا۔ اب یہ طے شدہ امر ہے کہ اس طرح کے حملوں کا جواب ضرور دیا جاتا ہے اور لگ بھگ اتنا ہی دیا جاتا ہے جتنی جارحیت ہوئی ہوتی ہے۔ اگر متاثرہ ملک جوابی حملہ نہ کرے تو اس کے دو بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ حملہ کرنے والا ملک اس طرح کے حملوں کو حسبِ ضرورت معمول بھی بنائے گا اور جلد ہی اس سے بھی ایک دو ہاتھ آگے جائے گا۔ دوسرا نقصان یہ کہ متاثرہ ملک کی رائے عامہ کا اعتماد بری طرح مجروح ہوجاتا ہے اور وہ اپنی سلامتی سے متعلق بے یقینی کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ قومی عزتِ نفس کا معاملہ الگ۔

سو اپنی قومی خودمختاری کو اہمیت دینے والے ممالک جوابی حملہ ضرور کرتے ہیں۔ اور یہ جوابی حملہ ہوتا بھی 48 گھنٹے کے اندر اندر ہے۔ اس سے جارح ملک کو بھی پیغام مل جاتا ہے کہ ردِعمل ضرور آئے گا اور متاثرہ قوم کا بھی اعتماد بحال ہوجاتا ہے۔ ہم پاکستانی حالیہ تاریخ میں دو بار اس کے مناظر اور نتائج دیکھ چکے۔ پہلی بار فروری 2019ء میں انڈین حملے کی صورت اور دوسری بار اس سال جنوری میں ایرانی حملے کی شکل میں۔ انڈین حملے کا جواب پاکستان ایئرفورس نے 24 گھنٹے میں دیا تھا جبکہ ایرانی حملے کا جواب ہماری طرف سے 48 گھنٹے میں گیا تھا۔

ایران کے لئے دمشق والے اسرائیلی حملے نے ایک مشکل صورتحال پیدا کردی تھی۔ غزہ کی شکست کے بعد سے اسرائیل بڑی خجالت کا سامنا کر رہا ہے۔ اس نے وہاں معصوم سویلینز کے قتلِ عام کے سوا کچھ نہیں کیا۔ وہ اب تک نہیں بتا پا رہا کہ اس نے حماس کو کیا نقصان پہنچایا؟ اسے کتنا جانی نقصان پہنچایا؟ اس کا کونسا اہم کمانڈر یا پولیٹکل لیڈر ٹارگٹ کرسکا؟ یہ سوالات اس لئے اہم ہیں کہ جنگ میں فتح و شکست کا فیصلہ اسی بنیاد پر ہوتا ہے کہ حملہ آور ملک حملے سے قبل اپنے سٹریٹیجک اہداف بتاتا ہے۔ سو اگر بتائے گئے اہداف حاصل ہوجائیں تو اسے فاتح مانا جاتا ہے، ورنہ نہیں۔ اسرائیل نے غزہ پر حملے کے وقت اپنا ہدف حماس کا خاتمہ بتایا تھا۔ اب زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ حماس کو تو ختم نہ کرسکا لیکن اپنی فوج کو بڑے جانی و مالی نقصان سے دو چار کرکے غزہ سے تقریباً بھاگا ہے۔ اور اس کی یہ شکست صرف عسکری ہی نہیں سیاسی بھی ہے۔

یوں پوری دنیا میں اسرائیل کا تماشہ لگا ہوا ہے اور ہر طرف اس کی شکست کے تذکرے ہیں۔ چنانچہ پچھلے دو ماہ سے اسرائیل کی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح ایران کو جنگ میں گھسیٹ لیا جائے۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ اگر ایران سے جنگ چھڑ جائے تو اس جنگ میں مغربی ممالک ضرور حصہ لیں گے۔ یوں ممکنہ فتح ہوگی تو مغربی ممالک کے دم پر مگر کریڈٹ وہ لے جائے گا جس سے لوگ غزہ کی شکست بھول جائیں گے۔

اب یہاں دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ پہلی یہ کہ کیا یہ طے ہے کہ مغربی ممالک کے خلاف ایران کا بھی وہی حال ہوگا جو عراق کا ہوا تھا؟ ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ ایران روس اور چین کے لئے بے پناہ اہمیت رکھتا ہے اور اسی لئے یہ کہا جاتا ہے کہ ایران پر حملے کا مطلب تیسری عالمی جنگ ہوگا۔ کیونکہ اس جنگ میں روس اور چین کا ایران کی مدد کو آنا طے ہے۔ دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ اگر بالفرض ایران کو روس اور چین کی مدد میسر نہ بھی ہو تو امریکی صدارتی انتخابات کی وجہ سے امریکہ ایران سے جنگ والا رسک لے ہی نہیں سکتا۔

اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کہ ایران سے جنگ کا جو خیال اسرائیل پال رہا ہے وہ فی الحال امریکی حکومت کے لئے قابل قبول نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایران کے لئے بھی قابل قبول نہیں۔ عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی کے بعد ایران برکس کے پلیٹ فارم سے معاشی ترقی کی ترجیحات رکھتا ہے جنگ کی نہیں۔ پیٹرول کے وسیع ذخائر رکھنے والا یہ ملک پابندیوں کے اثرات سے نکل کر آگے بڑھنا چاہتا ہے جو ایک معقول سوچ ہے۔

چنانچہ وہی ہوا جو اس قسم کی صورتحال میں پہلے بھی دنیا کی تاریخ میں بارہا ہوچکا۔ ہم نے ایرانی حملے کے لگ بھگ چار گھنٹے بعد اپنا تجزیہ سوشل میڈیا پر شیئر کردیا کہ یہ حملہ ایک فکسڈ میچ لگ رہا ہے۔ اور اس کی پانچ وجوہات پیش کیں۔ پہلی یہ کہ 48 گھنٹے میں ایران کی طرف سے جوابی حملہ نہ ہونے کا مطلب یہ تھا کہ کوئی بڑا ملک بیچ میں کود کر کوئی درمیانی راہ تلاش کر رہا ہے۔ دوسری یہ کہ اسرائیلی حملے کے آٹھ دن بعد جوبائیڈن  نے ہی دنیا کو بتایا کہ ایران بہت جلد حملہ کرنے والا ہے۔ اور اسرائیل نے حملے والی رات سے ایک دن قبل اور ایک دن بعد کے لئے تعلیمی اداروں میں عام تعطیل کردی تھی۔ جس کا مطلب ہے کہ ایران کے فکسڈ جوابی حملے کے لئے یہی رات باہمی طور پر طے کرلی گئی تھی۔ تیسری وجہ یہ کہ ایران نے جوابی حملے کے لئے شاہد ڈرون جیسے فضول ہتھیار کا استعمال کیا جس کی رفتار ہی 140 کلومیٹر ہے اور جسے مار گرانے کے لئے کوئی میزائل خرچ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ چوتھی وجہ یہ کہ ایران نے اس حملے کے فوراً بعد کہا ”معاملہ ختم سمجھا جائے“  اپنے دشمن کو یہ گارنٹی دینے کی اسے کیا ضرورت تھی؟ اور پانچویں وجہ یہ کہ ماسکو اور بیجنگ مکمل طور پر پرسکون رہے۔ گویا انہیں کوئی بڑی جنگ چھڑنے یا ایران کو نقصان پہنچنے کا کوئی اندیشہ نہ تھا۔

اس میچ فکسنگ میں اگر کسی کو رسوائی ہوئی ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ اسرائیل جس امریکہ کے سہارے ایران سے جنگ چھیڑنے کی سکیمیں بنا رہا تھا وقت آنے پر اسی امریکہ  نے ایران کا ساتھ دیدیا کیونکہ جنگ اس کے مفاد میں نہ تھی۔ ہم نے سوشل میڈیا پر اپنے اس ابتدائی تجزیئے میں یہ بھی عرض کردیا تھا کہ ہمارا یہ تجزیہ غلط ثابت ہونے کی بس یہی ایک صورت ہے کہ اب اسرائیل ایران پر حملہ کردے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دن شام کو ایک روسی دفاعی تجزیہ کار نے ہم سے پوچھا

“تم نے فائنانشل ٹائمز کی رپورٹ پڑھی؟”

”نہیں، کونسی رپورٹ ؟“

اگلے ہی لمحے اس نے لنک شیئر کردیا۔ یہ رپورٹ ایرانی حملے سے کچھ ہی دیر قبل شائع ہوئی تھی اور اس میں خبر دی گئی تھی کہ امریکہ اور ایران کے مابین طے پاچکا کہ ایران اسرائیل پر جوابی حملہ کرے گا۔ اس حملے کی جملہ جزیات بھی امریکہ اور ایران کے مابین طے پاچکیں۔ حملہ ہوگا مگر اسرائیل کو کوئی نقصان نہ ہوگا اور اس کے بعد معاملہ ختم سمجھا جائے گا۔ فائنانشل ٹائمز نے بتایا کہ اس پورے معاملے میں امریکہ اور ایران کے مابین رابطہ کار کا کردار عمان نے انجام دیا ہے۔ گویا عمان کی سہولت کاری سے میچ فکسڈ ہوا۔ اگرچہ اخبار نے اس کے لئے میچ فکسنگ کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ فائنانشل ٹائمز کی اس رپورٹ کی اہمیت یہ ہے کہ اخبار نے اسے وائٹ ہاؤس کے ذرائع سے رپورٹ کیا ہے۔ ہے نا مزے کی بات کہ اسرائیل کو میچ فکسنگ میں بھی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ وہ اپنا یہ مقصد حاصل نہ کر سکا کہ ایران کے ساتھ جنگ چھڑ جائے !

Related Posts