سپر طاقت اور سپر حماقت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن حال ہی میں بیجنگ کے دورے پر تھے۔ اس دورے پر بات سے قبل اس کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔

جب امریکہ دوحہ میں افغان طالبان سے مذاکرات کر رہا تھا تو ان مذاکرات کے آخری مراحل پر ہم نے ایک قسط وار تحریر میں تفصیل سے لکھا تھا کہ امریکہ افغانستان سے تقریبا رسہ تڑوا کر نکلنے کو ہے۔ وہ بہت جلدی میں لگ رہا ہے، اور اس جلدی کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اب چائنا پر فوکسڈ ہونا چاہتا ہے کیونکہ یہ چائنا ہی ہے جو اس سے دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت ہونے کا منصب چھین رہا ہے۔

چین دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت بننے کا خواب دھونس، دھمکی یا جنگوں کے ذریعے نہیں بلکہ معاشی و ٹیکنالوجیکل ترقی سے پورا کرنے جا رہا ہے۔ ظاہر ہے اپنی پوزیشن پر برقرار رہنے کے لئے امریکہ کو بھی یہی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ وہ پہلے سے ترقی یافتہ طاقت ہے۔ اس کے لئے تو یہ کام اور بھی آسان ہونا چاہئے۔ لیکن جس ملک کی پوری تاریخ بدمعاشیوں سے عبارت ہو وہ کوئی مثبت یا تعمیری راہ کیسے اختیار کرے؟ یہ تو عالمی محلے کا وہ غنڈہ ہے جو اہل محلہ کو بدمعاشی کے ذریعے خود سے آگے نکلنے سے روکنے کا عادی ہے۔ سو ہم نے لکھا کہ افغانستان سے نکلتے ہی یہ ساؤتھ چائنا سی میں اودھم مچانے کی کوشش کرے گا تاکہ چائنا کو بدمعاشی کے ذریعے آگے بڑھنے سے روک سکے۔

چنانچہ ہوا بھی یہی۔ اگر آپ پرانے اخبارات نکال کر دیکھیں تو افغانستان سے نکلتے ہی یہ اپنے تیس چالیس اتحادیوں کی نیول فورس جمع کرکے ساؤتھ چائنا سی میں پہنچ بھی گیا تھا۔ ابھی یہ وہاں ٹھیک سے آغاز بھی نہ کر پایا تھا کہ روس نے یوکرین پر حملہ کردیا۔ اور یوں امریکہ اور اس کے اتحادی ساؤتھ چائنا سی سے سیدھے یوکرین کی مدد کو پہنچے۔ اور ماشاءاللہ یوکرین کی اتنی مدد کی کہ آج ان سب کے اسلحہ خانے بھی خالی ہوچکے اور یورپ معاشی طور پر بھی تباہی سے دوچار ہے۔ کس نے سوچا تھا کہ یورپ میں بھی گیس و بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوگی؟ ہم کو تو وجاہت مسعود جیسوں نے بتایا تھا کہ مہذب اقوام کے ہاں لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی۔

ابھی یوکرین کی جنگ جاری ہے مگر نوشتہ دیوار اتنا واضح ہے کہ جو وکٹوریہ نولینڈ پندرہ برس سے پروجیکٹ یوکرین پر کام کر رہی تھیں انہیں دو ماہ قبل جوبائیڈن نے فارغ کردیا۔ ہر چند کہ یہ فراغت بھی بے پناہ اہم تھی اور دنیا بھر میں موضوع بن گئی تھی، کیونکہ وکٹوریہ نولینڈ ہی یوکرین کی پوری صورتحال کی روزِ اوّل سے ذمہ دار تھیں۔ لیکن چونکہ عالمی تجزیہ کار اس وقت جب ان کی جگہ کرٹ کیمبل کو لایا گیا جو چائنا کے حوالے سے متشدد رجحان رکھتے ہیں۔ انہیں ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ بنانے کا سیدھا سیدھا مطلب یہ تھا کہ امریکہ اب یوکرین سے مایوس ہوکر ایک بار پھر چائنا والے محاذ کا رخ کرنے لگا ہے۔ سو ہو بھی یہی رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کے دورہ چین سے صرف ایک ہفتہ قبل امریکی وزیر خزانہ جینٹ یلن بیجنگ کے دورے پر تھیں۔ اس دورے کے دوران انہوں نے ایک جملہ کہا تھا جس پر عالمی ماہرین پہلے حیران ہوئے اور پھر اسے کوئی بونگی سمجھ کر نظر انداز کرگئے۔ وہ جملہ تھا “چین کی اوؤر کیپسٹی ہمارے لئے پرابلم ہے” لیکن جب امریکی وزیر خارجہ بیجنگ پہنچے اور انہوں نے اوؤر کیپسٹی کو باقاعدہ ایجنڈا بنا لیا تو پہلے تو عالمی تجزیہ کار ایک دوسرے سے اس کا مطلب پوچھنے لگے کہ امریکہ دراصل کہنا کیا چاہ رہا ہے؟ اور جب مطلب واضح ہوا تو خود امریکہ کا ہی تماشا لگ گیا۔ ذرا دیکھئے امریکی وزیر خارجہ نے اسے کس طرح کھولا ہے:

“چین کی اوؤر کیپسٹی ہمارے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارے ورکرز (فیکٹری ملازمین) کے لئے مقابلہ دشوار ہوگیا ہے۔ چین اپنی اوؤر کیپسٹی کو کم کرے تاکہ ہمارے ورکرز برابری کی سطح پر مقابلہ کرسکیں۔ اگر چین یہ مسئلہ حل نہیں کرتا تو ہم خود حل کریں گے۔”

چلئے ہم سادہ مثال سے سمجھاتے ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ درحقیقت کہہ کیا رہے ہیں۔یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی چھوٹا بلڈر ترقی کرتے ہوئے مشہور زمانہ ریاض ٹھیکیدار سے آگے بڑھنے لگے۔ اور ریاض ٹھیکیدار اس سے یہ مطالبہ کردے کہ ہاؤسنگ کے شعبے میں تمہاری صلاحیت ہم سے زیادہ ہے۔ جتنے عرصے میں ہم سو مکان بناتے ہیں اتنے عرصے میں تم دو سو بنا لیتے ہو اور اس صورتحال کی وجہ سے ہمارے لئے تمہارا مقابلہ کرنا دشوار ہوگیا ہے۔ لہٰذا تم اپنی صلاحیت کم کرو تاکہ ہم مقابلہ کرسکیں۔ اس سے قدرے سادہ مثال چاہئے تو یوں سمجھ لیجئے کہ کوئی معمولی سا ناڑہ فروش ترقی کرتے کرتے کسی مقدس ناڑہ فروش سے آگے بڑھنے لگے تو وہ مقدس ناڑہ فروش مطالبہ کردے کہ اپنی ناڑہ فروشی کی استعداد کم کردو کیونکہ ہمارے لئے مقابلہ کرنا دشوار ہو رہا ہے۔ ہے ناں احمقانہ مؤقف؟

اس احمقانہ مؤقف کے ذریعے گویا امریکہ یہ اعتراف کر رہا ہے کہ وہ چین کی انڈسٹریل پاور کا مقابلہ کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتا۔ سو مارکیٹ میں اس کے برقرار رہنے کی واحد صورت یہی بچتی ہے کہ چین اپنی صلاحیت کم کرے اور اتنی نیچے لے آئے کہ امریکہ بہادر نمبر ون والی پوزیشن پر ہی برقرار رہے۔ یعنی بات وہی ہے جو ہم نے اس کالم کے آغاز میں کہی کہ امریکہ مثبت جذبے سے تعمیری ترقی کا کوئی تصور ہی نہیں رکھتا۔ اس کی ترقی میں بدمعاشی کا ہی کلیدی رول ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا چین اپنی پیداواری صلاحیت کم کرے گا؟ ظاہر ہے کہ نہیں کرے گا۔ ایسا احمقانہ مطالبہ تو دنیا کے کسی محلے میں پڑوسی دوکاندار بھی دوسرے دوکاندار کا نہ مانے تو عالمی تعلقات میں یہ کیسے مانا جاسکتا ہے؟ تو ایسے میں اگلا سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ پھر امریکہ کرے گا کیا؟ بدمعاشی کے باب میں امریکہ کو دو ہی کام آتے ہیں۔ ایک پابندیاں لگانا اور دوسرا جنگیں مسلط کرنا۔ جنگ تو یہ مسلط کرنے سے رہا۔ یہ ساؤتھ چائنا سی میں ڈینگیں مار سکتا ہے لیکن جنگ نہیں چھیڑ سکتا۔ اور اس کی دو جوہات ہیں۔ امریکی نوجوانوں میں فوجی کیریئر کا رجحان اتنا کم ہوگیا ہے کہ اب امریکی فوج اپنی سالانہ بھرتیوں کا معمول کا ہدف بھی پورا نہیں کرپاتی۔

دوسری وجہ یہ کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک اپنی فوجی طاقت ہی نہیں، اسلحہ سازی کی صلاحیت بھی بہت کم کرچکے۔ امریکہ اب صرف چند بڑے بڑے منافع بخش عسکری آئیٹم ہی بناتا ہے، جو اپنے پہلے سے موجود گاہکوں کو فروخت کرتا ہے۔ چنانچہ صورتحال یہ ہے کہ یوکرین توپ اور ٹینک کے گولے مانگ مانگ کر تھک گیا اور امریکہ اس کی یہ ضرورت پوری نہیں کرپا رہا۔ کیونکہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد انہوں نے یہ سوچ کر گولہ سازی کی صلاحیت بہت کم کردی کہ یہ گولے شولے پاکستان جیسے غریب ممالک بنائیں۔ ہم تو سپر طاقت ہیں، ہم ایف 22 جیسے بڑے بڑے آئیٹم بنائیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ جنگ کے میدان میں صرف چھوٹے اور پسماندہ ممالک سے ہی لڑتا رہا ہے۔ کسی طاقتور ملک کا اس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد سامنا ہی نہیں کیا۔ اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تو یہ عسکری طور پر بس افغانستان جیسے ممالک میں شادی کی باراتوں پر بمباریاں کرنے کی صلاحیت تک ہی رہ گیا ہے۔ معذرت چاہتے ہیں، تھوڑی سی غلط بیانی ہوگئی۔ اب ایسا بھی نہیں کہ امریکہ کسی بڑے ملک سے جنگ بالکل ہی نہیں لڑا۔ یہ لڑا بھی ہے اور شاندار فتوحات بھی حاصل کی ہیں۔ مگر یہ تمام جنگیں سنیما کے پردوں یا ٹی وی سکرین پر لڑی گئی ہیں۔ ہالی وؤڈ والے محاذ پر تو امریکہ ایلینز سے جنگیں جیت چکا ہے۔

سو امریکہ جنگ کی طرف جانے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ چین کے معاملے میں بھی اس کی واحد آپشن یہ ہوگی کہ چین کے بڑے بینکوں اور مالیاتی اداروں پر پابندیاں لگادے۔ اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ سب سے پہلے تو بتدریج ڈوبتی یورپین معیشتیں کھڑے کھلوتے آنِ واحد میں ہی ڈوب جائیں گی۔ کیونکہ ان کا چین میں بہت بڑا سٹیک ہے۔ ان کا سب سے بڑا گاہک ہی چین ہے۔ اور چین جواباً جو اقدامات کرے گا ان کے نتیجے میں امریکہ بھی لپیٹ میں آئے گا۔ مگر جو سب سے بڑا بھونچال آئے گا وہ عالمی سیاست کو ہی بدل کر رکھ دے گا۔ دنیا پہلے ہی ڈی ڈالرائزیشن کے عمل سے گزر رہی ہے۔ یہ عمل اتنا تیز ہوجائے گا کہ مغرب کو سمجھ ہی نہ آئے گا کہ ہو کیا رہا ہے۔

امریکہ کے اتحادیوں کو چھوڑ کر باقی تمام ہی ممالک برکس کی چھتری کی طرف دوڑ لگا دیں گے اور یہی طاقت مغرب سے مشرق شفٹ ہونے کا فیصلہ کن مرحلہ ہوگا۔ چین اور روس یہ کام کسی بڑے بھونچال کے بغیر بتدریج کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن اگر روس کے بعد چین کو پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا تو طاقت اور عالمی فیصلوں کے اختیار کی منتقلی کا یہ عمل ناقابلِ تصور حد تک تیز ہوجائے گا۔ سپر طاقت اور سپر حماقت کوئی نئی چیز نہیں۔ ہر ڈوبتی عالمی طاقت اپنے آخری دور میں بڑی حماقتیں کرتی آئی ہے۔ امریکہ بھی اسی راہ پر ہے۔

Related Posts