جب آصف زرداری نے بے نظیر بھٹو کو شرمندہ کرایا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

When Asif Zardari embarrassed Benazir Bhutto

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پاکستان کے سابق سفیر کرامت اللہ غوری کی کتاب پڑھتے ہوئے کئی پاکستانی حکمرانوں کے بارے میں ایسے ہوشربا واقعات پڑھنے کو مل رہے ہیں کہ اپنے قارئین سے شیئر کرنے کا جی چاہتاہے۔آج آصف زرداری سے وابستہ واقعات پڑھتے ہیں۔

کرامت غوری کویت میں پاکستان کے سفیر رہے ، وہ بتاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں وہاں مقامی پیپلزپارٹی رہنماؤں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو کویت بلوانے کی بہت کوشش کی۔

وہ بار باریہ اطلاع دیتے کہ بی بی جلد کویت آنے والی ہیں لیکن بی بی اپنے تین سالہ دور اقتدار میں ایک بار بھی کویت نہیں آئیں۔ بعد میں کویت کے ذمہ داران نے بتایا کہ اپنے پہلے دور اقتدار میں جب بے نظیر بھٹو کویت کے دورہ پر آئیں تو ان کے شوہر نامدار نے ان کے لئے شرمندگی اور ندامت کا جوسامان اکٹھا کیا ، اس نے بی بی کی کویت دوبارہ آمد کا راستہ بند کر دیا۔

کرامت غوری لکھتے ہیں :
” غیر ملکی سربراہان مملکت کے حوالے سے پروٹوکول کا ایک اصول ہے جس کے مطابق میزبان یا صدر کی گاڑی میں معزز مہمان ہی بیٹھتا ہے ۔ اگر مترجم کی ضرورت ہو تو وہ جمپ سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے اور آگے شوفر یا ڈرائیور کے ہمراہ مہمان کا اے ڈی سی بیٹھ جاتا ہے۔

زرداری صاحب بی بی کے پہلے دورہ کویت میں ساتھ تھے ، انہیں یہ سارا پروٹو کول ذہن نشیں کرا دیاگیا کہ ایک نمبر کی گاڑی میں صرف بے نظیر بھٹو بیٹھیں گی اور ان کے ہمرا ہ کویت کے ولی عہد اور وزیراعظم شیخ سعد جو میزبان تھے، بیٹھیں گے اور اے ڈی سی کے علاوہ اور کوئی نہیں۔

” زرداری صاحب کا دماغ تو شائد ساتویں آسمان پر تھا۔ کویت ائیر پورٹ پر بے نظیر بھٹو کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ جب وہ کویتی وزیراعظم شیخ سعد کے ہمراہ ان کی گاڑی میں بیٹھ گئیں اور گاڑی روانہ ہونے کو تھی کہ نجانے کہاں سے ان کے شوہر نامدارآصف زرداری نمودار ہوگئے اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اس میں داخل ہوئے اور آؤ دیکھا نہ تاؤ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان سیٹ پر براجمان ہوگئے ۔

زرداری نے پروٹوکول کی جو ایسی تیسی کر دی ، اس کی گرد تو اٹھنا تھی۔ کویتیوں نے کہا تو کچھ نہیں مگر کہنے کو بچا ہی کیا تھا؟بے نظیر بھٹو کو جو شرمندگی ہو ئی اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ ان کے بے حس شوہر نے نہ صرف ان کی لٹیا ڈبو دی تھی بلکہ پاکستان کے ماتھے پر بھی کلنک کا ٹیکہ لگا دیا تھا۔ بے نظیر نے وہ دورہ تو کسی نہ کسی طرح پورا کیا لیکن دوبارہ شرمندہ ہونے کے لئے کویت نہیں آئیں۔ “

کرامت غوری محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں الجزائر میں سفیر تعینات تھے، وہاں بی بی بطور وزیراعظم گئی تھیں۔ اس دورے کے دوران بھی دو دلچسپ مگر افسوسناک واقعات ہوئے۔ کرامت غوری بتاتے ہیں :” الجزائر کے بعد بے نظیر کو بغداد جانا تھا، یہی وہ دورہ تھا جس میں صدام حسین نے بے نظیر کو ملاقات سے پہلے آدھے گھنٹے تک انتظار کرایا تھا۔یہ اطلاع ملی تو ہم سوچتے رہے کہ بے نظیر نے وہ وقت کیسے انگاروں پر گزارا ہوگا، کیونکہ نخوت اور پندار ان میں بھی صدام سے کم نہیں تھا۔

عامر خانوانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کیلئے کلک کریں:

امریکی سفارت کار نے”پارٹی از اوور“ کا پیغا م کیوں دیا تھا؟

شہزاد اکبر کی رخصتی، کیا کھیل کے خاتمے کا آغاز ہوگیا؟

ڈیل ہونے یا نہ ہونے کے گرد لپٹی کہانیاں کیا ہیں ؟

” خیر اس وی وی آئی پی فلائٹ کے عمائدین کے لئے کراچی میں پی آئی اے کے فلائٹ کچن سے دو ماہر باورچی بطور خاص الجزائر بھجوائے گئے تھے ۔ باورچی فلائٹ سے دو دن پہلے الجزائر پہنچ گئے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ زرداری صاحب کو بھنڈی بہت پسند ہے اور اگر بھنڈی دسترخوان پر نہ ہو تو وہ نوالہ نہیں توڑتے۔ مشکل یہ آن پڑی تھی کہ الجزائر میں بھنڈی کا موسم نہیں تھا، بازار میں کہیں سے نہیں مل پائی،لیکن باورچیوں کا اصرار تھا کہ ہر صورت چاہیے۔ وہ روہانسے ہوگئے کہ اگر بھنڈیاں نہ ہوئیں تو ان کی نوکری تو گئی۔

ارشد سمیع خان(عدنان سمیع کے والد)جو دفتر خارجہ میں چیف آف پروٹوکول افسر تھے ، وہ بھی اس وفد میں شامل تھے۔

انہوں نے مجھ سے کہا کہ بھنڈی کا انتظام ضرور کرایا جائے ورنہ یہ لوگ کہیں گے کہ سفیر ایسا نااہل ہے کہ زرداری صاحب کے لئے بھنڈی بھی نہیں منگوا سکا۔ آخر بھنڈیاں پیرس سے ائیرپارسل سے منگوائی گئیں۔ یوں باورچی شاد ہوئے اور انہوں نے بڑے شوق سے وزیراعظم کے نکھٹو خاوند کے لئے بھنڈیاں پکائیں۔

” دورہ الجزائر میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی ، الجزائرکے خواص اور عوام نے ان کے لئے محبت سے بے شمار خط بھی لکھے ۔ اس دورہ میں مشکل یہ پڑی کہ پروٹوکول کے مطابق جہاں جہاں وزیراعظم کے شوہر نے ہونا تھا، وہ ہر اس جگہ اپنی عدم موجودگی کی وجہ سے نمایاں تھے۔

الجزائر کے دارالحکومت کے وسط میں شہدا کی ایک یادگار ہے، اس قومی یادگار پر پھول چڑھانے ہر معزز غیر ملکی شخصیت کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ زرداری صاحب نے وہاں بھی بے نظیر بھٹو کا ساتھ دینا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ اپنے ایک معتمد خاص کے ساتھ سرکاری مہمان خانے کے ایک سویٹ ایسے گم ہوئے ہوئے کہ کم ہی باہر دکھائے دئیے۔

وہ وہاں مراقبہ یا اعتکاف میں نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ ”دختر انگور“ بھی تھی۔ میری بیوی سے زرداری صاحب نے بطور خاص فرمائش کی کہ انہیں ہمارے باورچی کے ہاتھ کا پکاکھانا اور ہندوستانی فلموں کے ویڈیو کیسٹ اگر بھجوا دئیے جائیں تو وہ بڑے احسان مند ہوں گے۔ بیگم نے بچوں کی مدد سے مقبول فلموں کے کیسٹ انہیں بھجوا دئیے اور زرداری صاحب انہیں میں ڈوبے رہے۔

”دورہ کی آخری شام الجزائری صدر کی جانب سے دی گئی خصوصی دعوت میں بھی زرداری صاحب جانے کو تیار نہیں تھے، یہ خصوصی عشائیہ دونوں مہمان (میاں بیوی) کے لئے تھا، بے نظیر بھٹو پہلی سربراہ حکومت تھیں جن کو اس اعزاز سے نوازا گیا۔

زرداری صاحب کو عشائیہ میں شریک کرنے کے لئے وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان نے وزیراعظم سے بات کی اور انہیں بتایا کہ اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات متاثر بھی ہوسکتے ہیں، تب زرداری صاحب عشائیہ پر جانے کے لئے آمادہ ہوئے۔

”بے نظیر بھٹو دورے سے رخصت ہوگئیں تو میں اور میری بیگم یہ سوچتے رہے کہ بے نظیر کو کیا علم تھا کہ ان کے شوہر نامدار گیسٹ ہاؤس میں بند شغل کے ساتھ بھارتی ہندی فلموں سے دل بہلایا کرتے تھے ؟“۔

Related Posts