امریکی سفارت کار نے”پارٹی از اوور“ کا پیغا م کیوں دیا تھا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

امریکی سفارت کار نے”پارٹی از اوور“ کا پیغا م کیوں دیا تھا؟
امریکی سفارت کار نے”پارٹی از اوور“ کا پیغا م کیوں دیا تھا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج کل میری کوشش ہے کہ سوشل میڈیا پر ضائع کئے گئے بے شمار قیمتی گھنٹوں کے علاوہ جو وقت بچے،اس میں کتابیں پڑھی جائیں۔ کرامت غوری ہمارے سابق سفیر رہے ہیں، وہ کویت، الجزائر، ترکی اور چین جیسی اہم جگہوں پر مختلف سفارتی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔سفیر تو اور بھی کئی گزرے، مگر چند ایک ہی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی یاداشتیں قلم بند کیں۔ کرامت غوری ان میں سے ایک ہیں۔

ان کی یاداشتوں پر مبنی بہت ہی دلچسپ کتاب بارشناسائی چھپ چکی ہے، اس کے ایک سے زائد ایڈیشن بھی نکلے، اب ان کی ایک ضخیم کتاب ”روزگار سفیر“شائع ہوئی ہے، غوری صاحب نے اس میں بھی مزے کے بہت سے قصے بیان کئے ہیں، اپنے تجربات، مشاہدات اور وہ باتیں بھی لکھی ہیں جو ان کے ذمے تاریخ کا قرض تھیں۔ یہ کتاب پڑھ کر پاکستانی تاریخ کے مختلف واقعات سے کئی مسنگ لنکس اور غائب کڑیاں مل گئیں۔

بھٹو صاحب کے آخری دور کے حوالے سے ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں نے ایک امریکی سفارت کار کی گفتگو ٹیپ کی جس میں جملہ بولا گیا،پارٹی از اوورParty is over“۔ بھٹو صاحب نے یہ بات خود بتائی اور ان کا کہنا تھا کہ اس کوڈ ورڈ جملے کا مطلب یہ بتانا ہے کہ بھٹو کی حکومت جانے والی ہے۔ بھٹو صاحب نے یہ بات میڈیا پر بتانے کے بعد اپنے مخصوص انداز میں امریکیوں پر کاٹ دار حملے بھی کئے، اسے ہاتھی کہا اور بھی بہت کچھ۔

کرامت غوری تب اسلام آباد، وزارت خارجہ میں ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں اس واقعے کی تفصیل بیان کی ہے۔(طوالت سے بچنے کے لئے لفظ بہ لفظ کے بجائے ان کے جملوں کا مفہوم لکھ رہا ہوں)۔ کرامت غوری نے بتایا کہ ان دنوں امریکی سفارت خانے کے چند افسر بڑی پابندی کے ساتھ دفتر خارجہ کے چکر لگایا کرتے، ان میں ایک میاں بیوی سفارت کاروں کا جوڑا تھا، خاوند کا نام ہاورڈ شیفر تھا جسے ہاوی کہہ کر پکارا جاتا، اس کی بیوی تیریستھا بھی سفارت کار تھی۔ بھٹو اور پی این اے کے نو ستاروں کی لڑائی ہاتھیوں کی لڑائی تھی جس میں ہاوی شیفر نجانے کہاں سے آ گیا۔انکل سام کا نمائندہ امریکی سفارت خانہ اور اس کے چوکس سفارت کار اقتدار کی کشمکش کو بہت غور اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے، سفارت کاروں کا کام ہی میزبان ملک کی نبض پر ہمہ وقت ہاتھ رکھنا ہوتا ہے۔

کرامت غوری کے بقول اسی ہاوی شیفر کی ایک حساس گفتگو جو وہ دلی میں امریکی سفارت خانے کے ایک ہم منصب سے کر رہا تھا، وہ ہمارے اداروں نے ریکارڈ کر لی اور وہ اتنی تہلکہ خیز تھی کہ انہوں نے خبر فوری طور پر وزیراعظم بھٹو کو پہنچا دی۔ ہاوی شیفر ریکارڈ کی ہوئی گفتگو کے مطابق دلی میں اپنے ہم منصب کو بھٹو صاحب کی روزافزوں پریشانی کا احوال بتا رہا تھا کہ ان کے گرد مخالفوں کا گھیرا دن بہ دن تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ جب دوسری طرف سے سوال ہوا کہ بھٹو کے افق پر چھائی کالی گھٹاؤں سے کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ شیفر نے جواب میں کہا کہ بھٹو کی ہوا اکھڑی گئی ہے، اس کا جملہ تھا The Party is over for the Bhutto۔ یعنی بھٹو صاحب کا کھیل ختم ہوا اور ان کا بوریا بستر بندھنے کو ہے۔

”بھٹو صاحب کی انا تو ویسے بھی عام حالات میں ہمالیہ اور قراقرم کی بلندیوں کو شرماتی تھی، ہاوی شیفر کی پیش گوئی ان کے دل میں ترازو ہوگئی۔ ایک معمولی سفارت کار کی یہ مجال کہ وہ پاکستان کے شہنشاہ وقت کے زوال کی بات کرے۔ بھٹو صاحب نے فوری طور پر وزارت خارجہ کو حکم دیا کہ ہاوی شیفر کو ناپسندیدہ شخص قرار دے کر نکال دیا جائے۔ ہاوی شیفر کو اڑتالیس گھنٹے کی مہلت دی گئی۔ امریکی سفارت خانہ نے بھٹو صاحب کے اس فیصلے پر احتجاج یا اعتراض کئے بغیر ہاوی شیفر کو چوبیس گھنٹے میں دلی منتقل کر دیا۔

”بھٹو صاحب کی انا پر وار ہوا تھا، وہ تلملا رہے تھے اور اسی تلملاہٹ میں انہوں نے اسی شام قوم سے ٹی وی پر خطاب کیا جو ان کا آخری خطاب ثابت ہوا۔ اسی خطاب میں انہوں نے پی این اے کا بیرون طاقتوں سے گٹھ جوڑ سے قوم کو آگاہ کرتے ہوئے وہ تاریخی جملہ کہا جو ان کے سیاسی زوال کے تابوت میں آخری کیل بن گیا۔ انہوں نے اپنی کرسی جس پر وہ براجمان تھے، اس پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھا، می”ں کمزور ہوسکتا ہوں، لیکن یہ کرسی مضبوط ہے۔“ اس لمحہ غیظ میں انہوں نے کہاں سوچا ہوگا کہ چند روز میں یہ کرسی ساتھ چھوڑنے والی ہے۔“

کرامت غوری نے اس واقعے کی تفصیل رقم کرنے کے بعد ایک دلچسپ نکتہ اٹھایا اور ایک ایسا انکشاف کیا جو میں نے کم از کم آج تک پہلے کہیں اور نہیں پڑھا۔ وہ لکھتے ہیں:”سفارتی رسم ورواج کے مطابق کسی سفارت کار کو میزبان ملک ناپسندیدہ قرار دے تو اسے واپس اپنے ملک بلا لیا جاتا ہے، لیکن امریکی حکومت نے ہاوی شیفر کو واشنگٹن بلانے کے بجائے پاکستان کے پڑوس یعنی دلی میں تعینات کر دیا۔ بھلا ایسا کیوں کیا؟ ہم دفتر خارجہ والے اس سوال کی گتھیاں سلجھانے میں اپنا سر کھپاتے رہے، حتیٰ کہ پانچ جولائی آ گیا، پاکستان میں ایک اور مارشل لا ئنے اس سوال کو جواب فراہم کر دیا۔

”مارشل لا ء کے نفاذ کا اعلان علی الصبح ہوا تھا۔ اسی شام کو امریکی سفارت خانہ میں امریکہ کے قومی دن یعنی چار جولائی کے حوالے سے ایک استقبالیہ تھا۔ وہاں مہمانوں کا خیر مقدم کرنے والوں میں ہاوی شیفر اپنے چہرے پر تمام تر مسکراہٹیں بکھیرے موجود تھا۔ مارشل لائکا نفاذ ہوتے ہی شیفر نے اسلام آباد کا رخ کر لیا تھا۔ بھٹو کے آفتاب اقبال گہنائے جانے کے ساتھ شیفر کے بخت کا سورج طلو ع ہوگیا۔ شیفر اور وہ ملک جس کی وہ سفارتی نمائندگی کر رہا تھا، وہ اس اعلان فتح کے ساتھ ہمیں اور ہم جیسے دیگر ممالک کو یہ پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ”دیکھویاد رکھنا، ہاتھی سے گنا چھیننے کی غلطی مت کرنا، ہم دریا کے مگر مچھ ہیں، دریا میں رہنا ہے تو ہم سے بیر نہ رکھنا۔“

سابق سفیر پاکستان کرامت غوری آگے لکھتے ہیں:”بھٹو کی طرح ہاوی شیفر بھی تاریخ ہوچکا ہے، وہ بھی دنیا میں نہیں، لیکن میں آج بھی یہ سوچتا ہوں کہ جو کچھ ہوا، کیا وہ ایسا ڈرامہ تھا جس کا سکرپٹ پہلے سے لکھا جا چکا تھا؟ ہماری ایجنسیوں کی (فون ٹیپ کرنے کی)عادت سے اسلام آباد کے سب سفارت کار آشنا تھے۔ پھر وہ تو دور ابتلا تھا جس میں سفارت خانوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی تھی۔

”امریکی سفارت کار تو دوسروں سے زیادہ دانائے راز تھے۔ ان سے کیا چھپا تھا؟ پھر ہاوی شیفر نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے ایسی بات کیوں کی جو اس کے خلاف بھٹو کے ہاتھ میں لوڈڈ گن بن جائے؟ کیا بھٹو کو اشتعال دلانا مقصود تھا؟یا پھر امریکی بھٹو کو اشاروں، کنایوں میں کوئی پیغام دینا چاہتے تھے؟ کیا پیغام دینا چاہتے تھے وہ؟ وہی جو شیفر نے فون پر اپنے دوست سے دلی میں کہا کہ بھٹو کا سامان لد چکا ہے؟ کیا وہ بھٹو کو جتانا چاہ رہے تھے کہ یا تو اقتدار سے بغیر غل غپاڑے کے الگ ہوجاؤ ورنہ بدترانجام کے لئے تیار ہوجاؤ؟“

Related Posts