ڈیل ہونے یا نہ ہونے کے گرد لپٹی کہانیاں کیا ہیں ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Stories about PML-N and Establishment Deal

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پچھلے چند دنوں میں دو تین ایسے کھانوں میں شریک ہوا جہاں مختلف سیاسی نقطہ نظر رکھنے والے احباب جمع تھے۔ ایک ڈنر میں زیادہ تر شرکا ء محفل مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے تھے۔

گپ شپ میں اندازہ ہوا کہ ان پر مایوسی غالب ہے، انہیں ”خدشہ “ہے کہ عمران خان کسی نہ کسی طرح اپنی مدت مکمل کرلے گااور آئندہ بھی حکومت بنا سکتا ہے۔انہیں یہ معلوم کرنے میں دلچسپی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت جا رہی ہے یا نہیں اور یہ”کرشمہ“آخر کس طرح ہو پائے گا؟۔

ایک اور کھانے کی محفل میں اکثریت تحریک انصاف کے حامیوں کی تھی۔ مایوسی ان کی بھی دیدنی رہی۔ ان کے پاس حکومتی کارکردگی کے دفاع میں کچھ خاص نہیں تھا، صرف چند اقتصادی اعدادوشمار تھے جن پر انہیں خود بھی یقین نہیں لگ رہا تھا۔

صحت کارڈ کے حوالے سے البتہ یہ لوگ پرامید نظر آئے کہ یہ گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ شرکا کی دلچسپی یہ معلوم کرنے میں تھی کہ کیا ن لیگ کی مقتدر قوتوں سے ڈیل ہو رہی ہے اور میاں نواز شریف واپس آئیں گے یا نہیں؟ خاکسار کو باخبر صحافی تصور کرتے ہوئے اس حوالے سے بار بار پوچھا گیا۔ ہم نے بھی انہیں مایوس نہیں کیا اورمختلف سازشی تھیوریز کی بارہ مسالے کی چاٹ بنا کر پیش کر دی۔

اس لئے حقیقت یہ ہے کہ حقیقت کا علم کسی کو نہیں۔ مختلف افواہیں خبریں بنا کر پیش کی جا رہی ہیں، سازشی تھیوریز ڈرائنگ میں بیٹھ کر گھڑی جاتی اور پھر سوشل میڈیا، یوٹیوب وی لاگز اور کہیں کہیں مین سٹریم میڈیا کے ذریعے انہیں پھیلایا جا رہا ہے۔ ہر حلقے کا اپنا ایجنڈا اور اپنا مفاد ہے۔اسی کے تحت وہ سب لگے ہوئے ہیں۔

تحریک انصاف نے باقاعدہ پلاننگ کر کے ن لیگ، حکومت ڈیل کی خبریں چلائی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک اہم اجلاس میں دانستہ ایسی چند باتیں کیں جس سے اس تاثر کو تقویت ملے اور پھر اندرونی کہانی کانام دے کر وہ سب باتیں ٹی وی ، اخبارات میں چلائی گئیں۔

تحریک انصاف کے دوست بتاتے ہیں کہ اس کے دو مقاصد ہیں۔مسلم لیگ ن کے مزاحمتی بیانیہ کو نقصان پہنچانا، ظاہر ہے جب اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی باتیں چلتی رہیں گی اور پھر اینٹی اسٹیبلشمنٹ لانگ مارچ کرنا پڑا تو کس نے ان نعروں پر یقین کرنا ہے۔ دوسرا یہ کہ ڈیل کے کسی بھی امکان کو قبل از وقت اقدام کر کے سبوتاژ کر دینا۔

ن لیگ کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنا مزاحمتی بیانیہ بھی ساتھ چلانا چاہتی ہے مگر دوسری طرف اپنے الیکٹ ایبلز اور اقتدار پرست ارکان اسمبلی کو مطمئن کرنے کے لئے انہیں مفاہمانہ بیانیہ بھی ساتھ رکھنا پڑتا ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات زیادہ دور نہیں، عدالتوں کے دباؤ پر چند ماہ میں یہ الیکشن پنجاب حکومت کو کرانا پڑیں گے۔ اگر ڈیل کا تاثر رہے تومقامی سطح پر تگڑی شخصیات اور بااثر دھڑے ن لیگ کے ساتھ جڑے رہیں گے۔

بلدیاتی انتخابات میں اگر امیدواروں کو علم ہو کہ ان کی پارٹی کو نہیں جیتنے دیا جائے گا تو وہ آزاد لڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ن لیگ بلدیاتی الیکشن میں بھرپور کارکردگی دکھانے کے لئے مضبوط امیدواروں کو اپنے ساتھ لگائے رکھنا چاہتی ہے۔

رہی بات لندن بیٹھے میاں نواز شریف کی سوچ کی ، اس حوالے سے بھی دو مختلف خبروں کے چینل چل رہے ہیں۔ ن لیگ کی سیاست کو مانیٹر کرنے والے ایک باخبر تجزیہ کار سے بات ہو رہی تھی، انہوں نے ایک اچھا نکتہ اٹھایا، کہنے لگے،” میاں صاحب کی واپسی کے حوالے سے جو بھی خبریں چل رہی ہیں، زیادہ تر یہ علی ڈار، حسین نواز وغیرہ کے حوالے سے آتی ہیں یا وہ چند ایک ن لیگی حامی جو میاں صاحب کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنانے کے شوقین ہیں، ان لوگوں سے جب یہ پوچھا جائے کہ میاں نواز شریف کیا کر رہے ہیں تو جواب سن کر مایوسی ہوتی ہے۔

عام طور پر یہی پتہ چلتا ہے کہ نواز شریف صاحب صبح دفتر آ جاتے ہیں، دو چار دوستوں سے ملتے ، گپ شپ لگاتے ہیں، کوئی اہم فون آ گیا تو سن لیا، ورنہ ان کی اصل دلچسپی اپنے نواسے نواسوں کے ساتھ گپیں لگانے، ان کی سرگرمیوں میں انوالو رہنے میں ہے، بہت بار وہ سیاسی ملاقاتیوں سے ملنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں،یہ سرگرمیاں وطن واپسی اور احتجاجی تحریک چلانے والی نہیں بلکہ چین ، سکون سے زمانہ امن گزارنے والی ہیں۔ میاں نواز شریف لگتا ہے سردست عملی جنگ کے موڈ میں ہی نہیں۔“

میاں نواز شریف کی یہ سرگرمیاں سن کر مجھے اپنی پسندیدہ فلم گاڈ فاد ر یاد آ گئی۔ لیجنڈری ڈائریکٹر فورڈ کپولا کی یہ فلم کلاسیک حیثیت رکھتی ہے ۔ اس میںڈان ویٹو کارلیون(مارلن برانڈو)کے ریٹائرمنٹ کے ایام کی عکاسی اسی طرح کی گئی۔ وہ پرانے ساتھیوں سے فاصلہ رکھتے ہوئے اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتا تھا۔ ہمیں البتہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ میاں نواز شریف ریٹائر نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے ہتھیار رکھ دئیے ہیں۔

میاں نواز شریف دراصل مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔اپنے تجربے سے انہوں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ جب لوہا گرم ہو ، تب چوٹ لگانی چاہیے، عجلت میں کئے گئے کام نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب کو لگتا ہے کہ پاکستان پر عالمی معاشی اداروں کی جانب سے دباؤ بڑھ رہا ہے، اربوں ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں۔

ریکوڈک کیس میں بھی بڑی ادائیگی کا وقت آ گیاہے، موجودہ حکمرانوں سے معیشت سنبھل نہیں رہی۔ ن لیگ کے ٹاپ حلقوں میں یہ سوچ بھی کارفرما ہے کہ عمران خان نے کوئی ایڈونچر کر ڈالا تو اپنے سرپرستوں سے اس کے تعلقات مکمل طور پر منقطع ہوجائیں گے۔ ان کی خواہش ہوگی کہ خان ایسی خودکشی والا کام کر گزرے۔

نواز شریف کا خیال ہے کہ معیشت ایسے ڈانواں ڈول رہی تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف حکومت کے سرپرست بھی مایوس اور پریشان ہو کر ان سے ڈیل کے لئے تیار ہوجائیں گے۔

کچھ رابطے ہوئے ہیں، بات چیت کے پس پردہ چینل کھلے ہوئے ہیں۔ان کے حامی ایک باخبر اخبارنویس کے مطابق میاں نواز شریف کو مگر کوئی جلدی نہیں،وہ مزید چند ماہ انتظار کرنے کو تیار ہیں۔ان کے ایک اور سیاسی حامی نے اس اخبارنویس سے سوال کیا،” میاں صاحب آخر ابھی وطن واپس کیوں آئیں؟ جیل جانے کے لئے؟کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ کچھ مزید انتظار کر کے حکومت کمزور ہونے دیں اور پھر آخری وار کر کے اسے گرائیں؟“۔

مختلف افواہوں ، گوسپ اور سازشی تھیوریز سننے اور ان کے تجزیہ کے بعد مجھے یہ لگتا ہے کہ ابھی ڈیل ہونے اور میاں صاحب کی وطن واپسی کی خبریں قبل از وقت ہیں۔ کم از کم اگلے تین ماہ میں اس کا کوئی امکان نہیں۔اگر حالات سازگار رہے، عدالتوں سے انہیں ریلیف ملے یا اس کا قوی امکان بن جائے ، ان کی سزا کسی ٹیکنیکل طریقے سے ختم ہوجائے، تب میاں نواز شریف واپس آ سکتے ہیں۔

اس وقت تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلزپارٹی یعنی تینوں بڑی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ الیکشن فوری نہ ہوں ۔تحریک انصاف اپنی مدت مکمل کرنا چاہتی ہے۔ پیپلزپارٹی کواس پر کوئی اعتراض نہیں، البتہ وہ حکومت پر طنز کے تیر برساتے رہیں گے۔

ن لیگ کی قیادت یہ چاہتی ہے کہ تحریک انصاف حکومت مکمل طور پر ناکام ہوجائے تاکہ ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے۔ ان کا خیال ہے ساڑھے تین سال ضائع ہوجانے کے بعد باقی ماندہ ڈیڑہ برسوں میں کچھ نہیں ہوپائے گا اور حکومت خود اپنے وزن سے نیچے گرپڑے گی۔

Related Posts