شہزاد اکبر کی رخصتی، کیا کھیل کے خاتمے کا آغاز ہوگیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شہزاد اکبر کی رخصتی، کیا کھیل کے خاتمے کا آغاز ہوگیا؟
شہزاد اکبر کی رخصتی، کیا کھیل کے خاتمے کا آغاز ہوگیا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیراعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کے استعفے کو ہمارے سیاسی افق اور سوشل میڈیا پر بارش کا پہلا قطرہ کہا جاتارہا۔ اپوزیشن کے سیاسی رہنما شہزاد اکبر کی جانب سے پچھلے تین برسوں میں لگائے گئے الزامات کی بنا پر برہم ہیں۔ انہوں نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سابق مشیر پر سخت تنقید کی ۔عمران خان کے مخالف عوامی حلقوں کو شاید ایسا لگا کہ شہزاد اکبر ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگا رہے ہیں اور یہ عمران خان کی حکومت کا شیرازہ بکھرنے کا آغاز ہے۔

اسلام آباد کے سیاسی حلقے البتہ اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ شہزاد اکبر نے استعفیٰ اس لئے پیش کیا کہ انہیں ایسا کرنے کا کہا گیا، ان پر شدید دباؤ تھا کہ احتساب کا عمل کماحقہ طور سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ شہزاد اکبر کے استعفے کے حوالے سے خبریں پچھلے چند ہفتوں سے چل رہی تھیں۔ وجہ وہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اپنی حکومت کی بری کارکردگی اور اپنے بعض وعدے پورے نہ ہونے پر شدید تشویش ہے۔ خان صاحب کی شدید خواہش ہے کہ احتساب کیسز میں جلد از جلد مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت اور خاص کر میاں شہباز شریف کو سزاملے۔ شہباز شریف کو سزا دلوانے میں وہ اس لئے بھی ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں کہ انہیں معلوم ہے میاں نواز شریف کی نسبت شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ متبادل چوائس ثابت ہوسکتے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ دو ہفتے قبل ایک کابینہ اجلاس میں وزیراعظم اور بعض وزرا نے مشیر احتساب شہزاد اکبر پرتنقید کی، شیخ رشید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ احتساب کی پالیسی مکمل ناکام رہی ہے اور کیسز کے فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کا مؤقف کمزور پڑا ہے۔کہا جاتا ہے کہ مبینہ طور پرشہزاد اکبر نے اس پر جوابی تنقید کی اور کہا کہ اگر عدالتوں سے حکومت کے تعلقات بہتر نہیں اور فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے تو اس میں میرا کیا قصور؟ انہوں نے اٹارنی جنرل اور وزیرقانون کو اس کا ذمہ دار ٹھیرایااور استعفے کی پیش کش کی۔ یہ معاملہ تب ٹل گیا اور وزیراعظم نے کہا کہ استعفے کی ضرورت نہیں۔

مگر یہ بڑھتا ہوا دباؤ کم نہیں ہوا اور آخر پیر کے روز شہزاد اکبر کو استعفیٰ دینا پڑا۔ استعفیٰ جس سرعت سے منظور ہوا اور میڈیا پر نئے متوقع مشیر احتساب کے حوالے سے نام چلنے لگے، اس سے یہ واضح ہے کہ مستعفی ہونے کا کہا گیا تھا اور شہزاد اکبر نے ازخود یہ فیصلہ نہیں کیا۔ اس لئے اسے بہرحال بارش کا پہلا قطرہ تو نہیں کہا جا سکتا۔ یہ طے ہے کہ عمران خان احتساب کے عمل کو تیز تر کرنے اور اپوزیشن لیڈروں کو سزائیں دلوانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ لاہورسے نیب کے اعلیٰ افسر کا تبادلہ بھی مبینہ طور پر اسی وجہ سے ہوا کہ حکومت کو شکوہ تھاکہ اپنے بظاہر اینٹی شریف خاندان مؤقف اورخیالات کے باوجود وہ افسر احتساب کیسز کو نتیجہ خیز بنانے کی حکمت عملی بنانے سے قاصر رہے۔ یہ تبدیلی اس لئے لائی گئی کہ کیسز کی سماعت کی رفتار تیز ہو اور نیب اپنی پوری قوت اس میں صرف کر ڈالے۔ حکومت کی یہ خواہش کس حد تک پوری ہوپائے گی، اس کا اندازہ جلد ہوجائے گا۔

اسلام آبادمیں بہرحال سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ وزیراعظم دباؤ میں ہیں، ان کی باڈی لینگویج یہ بتا تی ہے اور اگلے روز انہوں نے کھل کر کئی ایسی باتیں کہہ ڈالیں جن سے افواہوں کو تقویت ملی۔ ان کا یہ کہنا کہ میں باہر آ کر زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا،سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بڑا معنی خیز اور زومعنی سمجھا گیا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ عمران خان اگر ایوان اقتدار سے باہر آ گئے تو وہ اپوزیشن جماعتوں کو اس سے زیادہ کیا نقصان پہنچا سکیں گے جو وہ آج پہنچانے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس لئے ان کا بیان اپوزیشن کے لئے نہیں بلکہ واضح طور پر مقتدرہ قوتوں کے لئے ایک دھمکی یا اشارہ ہے۔

سوال مگر یہ ہے کہ یہ دھمکی دینے کی نوبت کیوں آئی؟ اس پر مختلف حلقے مختلف مؤقف اختیار کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی اہم شخصیت نے ایک اہم ملاقات کی، جس کی تفصیل وزیراعظم تک پہنچی اور پھر اس ملاقات میں ہونے والی باتوں کو لے کر” ایک صفحہ“ پر موجود قوتوں میں ایک بار پھر کچھ فاصلہ بنا۔ یہ ایک صفحے اور فاصلہ ختم ہونے، پیدا ہونے کا کھیل بھی پچھلے ایک سال سے جاری ہے۔ اس حوالے سے مختلف سینہ گزٹ کہانیاں بیان کی جاتی ہیں،نچوڑ سب کا یہ ہے کہ اصل قصور اور نقص خان صاحب کی اپنی ناقص کارکردگی اور اہم عہدوں پر برے تقرر کا ہے۔

عمران خان کو خطرہ ہے کہ ان کے خلاف کھچڑی پک رہی ہے ۔برتن ان کے سامنے نہیں اور نہ ہی کھچڑی کے اجزائے ترکیبی، البتہ خان صاحب کو یہ اندازہ ضرور ہے کہ برتن سے جو بھی پک کر نکلے گا، وہ ان کے خلاف ہی استعمال ہوگا۔

اسلام آباد میں ایک بار پھر اندرونِ ایوان تبدیلی (اِن ہاؤس چینج) کی باتیں بھی سنائی دینے لگی ہیں۔

اِن ہاﺅس تبدیلی کی دو ہی صورتیں ہوتی ہیں۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری اور اس کے بعد نئی حکومت کا بننا یا نئی حکومت نہ بننے کی صورت میں ازخود اسمبلیوں کی تحلیل۔ دوسری قرین قیاس تھیوری یہ ہوسکتی ہے کہ خان صاحب کسی تکنیکی وجہ سے نااہل ہوجائیں۔ پارٹی فنڈنگ کیس کو ذہن میں رکھیں۔ ان کے نااہل ہونے کی صورت میں ظاہر ہے نئی حکومت تشکیل پائے گی۔ تحریک انصاف ہی سے دو نام متبادل کے طور پر لئے جاتے ہیں جو شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک کے ہیں۔

پرویز خٹک شاید اس لئے کہ وہ کے پی کے ارکان اسمبلی کو بھی قابو میں رکھیں گے اور اپنی نرم طبیعت کے باعث سب کے لئے قابل قبول ہیں، ان کے حامی یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ اگر انہیں چنا گیا تو پھر جہانگیر ترین اپنے تمام تر تعلقات اور ”مہارتوں “کے ساتھ ان کے پیچھے آ کھڑے ہوں گے۔ رہے شاہ محمود قریشی تو ظاہر ہے وہ قدآور شخصیت ہیں، مقتدر حلقوں سے بھی پرانا تعلق رکھتے ہیں، اپوزیشن کے ساتھ بھی ان کے رابطے ہیں۔

یہ تو ہیں سازشی تھیوریز۔ اس کے خلاف دو باتیں جاتی ہیں ۔ پہلی یہ کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد سے نہیں ہٹایا جا سکا۔ کمزور وفاقی حکومت بھی اپنے وسائل کی مدد سے یہ تحریک ناکام بنا دیتی ہے۔ دوسرا اس وقت اپوزیشن اس حوالے سے یکسو نہیں۔ البتہ کہیں اندر خانے کوئی خفیہ منصوبہ بن رہا ہو تو وہ الگ بات ہے، بظاہر اشارے اس کے برعکس ہیں۔

دوسری بات یہ کہ جب اسٹیبلشمنٹ کسی حکومت کے مخالف ہوتی اور اسے گرانے کا سوچ لیتی ہے تو اس کے تین اشارے ہوتے ہیں۔ حکمران جماعت میں فارورڈ بلاک بنتا ہے ، جس کے ارکان اسمبلی اعلانیہ حکومت پر گولہ باری شروع کر دیتے ہیں۔ حکومتی کرپشن سکینڈل سامنے آنے لگتے ہیں۔ آئے روز کوئی نیا سکینڈل میڈیا کی زینت بننے لگتا ہے، مخصوص رپورٹرز، اینکرز حضرات کے ہاتھوں میں ایسی فائلیں نظر آنے لگتی ہیں جن میں حکومتی کرپشن کی غضب کہانیاں موجود ہوں۔ حکمران کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بھی انکشافات سامنے آتے ہیں۔ اس کے چند ایک قریبی معتمد ساتھی استعفے دینے لگتے ہیں ۔

سب سے اہم یہ کہ اپوزیشن تب متحد اور یکسو ہوجاتی ہے۔ یہ واضح اشارے بتاتے ہیں کہ حکومت پر دباؤ شدید ہوگیا ہے اور جانا طے ہوچکا ہے، آج گئے، کل گئے۔ عمران خان کی ابھی ایسی حالت نہیں ہوئی۔ ان کی نام نہاد ساکھ (سوکالڈ کریڈیبلٹی) ابھی تار تار نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے کچھ باتیں اب چل رہی ہیں، مگر سردست نجی محفلوں میں یہ ذکر ہوتا ہے، میڈیا کی زینت نہیں بن رہا۔

اس سے کیا ثابت ہوا ، یہ کہ حکومت مضبوط ہے اور سب ٹھیک ہوجائے گا؟ آپ چاہیں تو یہ نتیجہ بھی نکال سکتے ہیں ، مگر ہم نے ایسا کچھ نہیں کہا۔

مسائل موجود ہیں، کچھ چیزیں چل رہی ہیں، مگر ابھی وہ سیال (لیکوڈ)شکل میں ہیں۔آگے جا کر وہ گمبھیر صورت اختیار کر سکتی ہیں اور یاد رہے کہ سیاست میں کبھی معاملہ فاسٹ فارورڈ بھی چلتا ہے، مہینوں کا کام ہفتوں اور دنوں میں ہونے لگتا ہے، کبھی اتنا سست ہوجاتا ہے کہ سامنے موجود منزل مہینوں تاخیر سے مل پاتی ہے۔ اصل ٹیسٹ کیس وزیراعظم کے فیصلے ہیں، بحران سے نکلنے ، معاملات سنبھالنے کی ان کی صلاحیت پر خاصا کچھ منحصر ہے۔

کئی بار تجزیوں میں ایک صورت بیان کی جاتی ہے، مگر ویسا ہوتا نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خبر غلط ہوتی ہے یا تجزیہ بے بنیاد ۔ اس کے برعکس تب معاملہ عمدگی سے سنبھال لیا جاتا ہے اور بحران بڑھنے نہیں دیا جاتا۔ اس سنبھالے جانے کو کریڈٹ دینا چاہیے، مگر یہ بات عام قاری نہیں سمجھ پاتا۔گزارش بس یہی ہے کہ اس مضمون میں بیان کی گئی باتوں کو پڑھنے کے ساتھ انہیں پڑھنے کی کوشش بھی کریں جو بیان نہیں کی جا سکتیں۔

Related Posts