واقعۂ کربلا، 9 محرم الحرام کے روز حضرت امام حسین کے قافلے کے ساتھ کیا ہوا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

واقعۂ کربلا اسلامی تاریخ کی وہ المناک داستان ہے جس نے دینِ اسلام میں نئی روح پھونک دی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور 72 جانثاران نے وہ تاریخ رقم کی جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کو امیر المؤمنین تسلیم کرنے کیلئے لکھی گئی بیعت کرنے سے انکار کردیا اور یزید کا اپنے سپاہیوں کو حکم تھا کہ اگر امام حسین رضی اللہ عنہ بیعت کر لیتے ہیں، تبھی ان کی جاں بخشی کی جائے گی، ورنہ نہیں۔

دونوں طرف مسلمان

سب سے تکلیف دہ حقیقت یہ تھی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اسلامی سلطنت کے دشمن نہیں تھے جن کے خلاف لشکر کشی کی جاتی اور نہ ہی یزید بظاہر کوئی کافر تھا، بلکہ وہ تو امیر المؤمنین کے رتبے پر فائز ہونا چاہتا تھا۔

تاہم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے ظلم و ستم کے باعث اس کی بیعت سے انکار کیا اور یہ انکار یوں بھی اہم تھا کہ اگر آپ رضی اللہ عنہ یزید کی بیعت کر لیتے تو مسلمانوں کیلئے یہ ایک مثال بن جاتی کہ اگر ظالم طاقتور ہو تو اپنی جان بچانے کیلئے اس کا ساتھ دیا جاسکتا ہے۔

دونوں ہی طرف مسلمان تھے لیکن ایک جانب ایسے مسلمان اور اہلِ بیت جن کے گھر سے اسلام پوری دنیا میں پھیلا اور دوسری جانب وہ مسلمان جو کفار سے بھی بدتر تھے اور اس نواسۂ رسول ﷺ کو قتل کرنے کے درپے تھے جس نے دوشِ رسول ﷺ پر سواری کی۔

ظلم و ستم کی داستان

کربلا میں جو کچھ ہوا وہ کسی خوفناک اور درد و الم سے بھرپور داستان سے کم نہیں ہے کیونکہ عاقبت نااندیش اور بد عقیدہ افراد نے محض حاکمِ وقت یزید کے کہنے پر اپنے ہی رسول ﷺ کے گھر والوں یعنی اہلِ بیت پر چڑھائی کی۔

نہ صرف آلِ رسول ﷺ کے بڑوں اور بچوں کو بے دردی سے وحشت ناک طریقے سے قتل کیا گیا بلکہ خواتین سے بد سلوکی کی گئی اور اہلِ بیت کے خیموں تک کو جلا دیا گیا۔ میتوں کی بے حرمتی بھی اس واقعے کا ناقابلِ بیان حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

تاسوعہ کیا ہے؟

محرم الحرام کی 9 تاریخ کو واقعۂ کربلا میں تاسوعہ کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب شمرِ لعین عبید اللہ بن زیاد کا خط لے کر میدانِ کربلا میں داخل ہوا اور عمر بن سعد کے حوالے کردیا۔

یہ عمر بن سعد تاریخِ اسلام کے انتہائی بہادر صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا جسے مذکورہ خط کے ذریعے یزید نے حکم دیا کہ یا تو امام حسین رضی اللہ عنہ سے سخت رویہ اپناؤ یا پھر لشکر کی قیادت شمر کے سپرد کردو۔

عمر بن سعد نے لشکر کی کمان شمر کو نہیں دی اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کیلئے تیاری کرنے لگا۔ جب وہ اہلِ بیت کے خیموں پر حملہ کرنے کیلئے بڑھنے کا ارادہ کرچکا تھا، تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ابنِ سعد کی طرف روانہ کردیا۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے امر بن سعد کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا پیغام پہنچایا کہ ہمیں ایک رات کی مہلت دو۔ اس اعتبار سے تاسوعہ وہ آخری دن ہے جب امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے جانثاروں نے رات کا بھی نظارہ کیا۔

اس سے اگلے دن یعنی یومِ عاشور کے واقعات انتہائی کربناک ہیں جب 72 جانثاروں پر مشتمل لشکرِ حسینی پر یلغار کی گئی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں، جوانوں، بچوں اور اہل و عیال سمیت اسلام کی راہ میں شہید ہو گئے جس کی یاد میں ہر سال یومِ عاشور منایا جاتا ہے، بقول مولانا ظفر علی خان:

اے کربلا کی خاک! اِس احسان کو نہ بھول

تڑپی ہے تجھ پہ نعشِ جگر گوشۂ بتول

اسلام کے لہو سے تری پیاس بجھ گئی

سیراب کرگیا تجھے خونِ رگِ رسول ﷺ

کرتی رہے گی پیش شہادت حسین ؓ کی

آزادئ حیات کا یہ سرمدی اصول

چڑھ جائے کٹ کے سر ترا نیزے کی نوک پر

لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول

Related Posts