کراچی:حکومت کی جانب سے کئے گئے تمام تر دعوؤں کے باوجود ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل تنزلی، انٹر بینک میں 169روپے 63پیسے اوراوپن مارکیٹ میں قیمت 169روپے 80پیسے تک پہنچ گئی، ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے پاکستان کے قرضوں میں بھی اضافہ ہوگیا ۔
بدھ کے روز بھی پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی دیکھی گئی اور انٹر بینک میں ایک ڈالر 169روپے 63پیسے کی سطح پر آگیا ہے جو کہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔دوسری جانب اسٹیٹ بینک نے روپے کی بے قدری روکنے کے لیے 3ماہ کے دوران انٹربینک مارکیٹ میں 1.2 ارب ڈالر داخل کیئے مگر اس کا یہ اقدام کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا اور روپے کی قدر تاریخ کی کم ترین سطح تک گرگئی۔
معاشی ماہرین کے مطابق روپے کی تاریخی بے قدری ظاہر کرتی ہے کہ ساختی معاشی نقائص کو دور کیے بغیر توسیعی پالیسیوں کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔
ایکسچینج مارکیٹ میں 1.2ارب انجیکٹ کرنے کا اقدام اسٹیٹ بینک، آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ تینوں کی بیان کردہ پالیسیوں کے برخلاف ہے کیوں کہ تینوں کا دعوی ہے کہ روپے کی قدر کا تعین مارکیٹ کی قوتیں کرتی ہیں۔
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ جون کے وسط سے رواں ماہ کے پہلے ہفتے تک مرکزی بینک نے اپنے ذخائر میں سے 1.2ارب ڈالر مارکیٹ میں داخل کیے ہیں۔ ایک ہی دن میں سب سے زیادہ 10 کروڑ ڈالر جولائی میں اور پھر ایک دن میں ساڑھے 8کروڑ ڈالر اگست میں مارکیٹ کو دیے گئے۔اسٹیٹ بینک کی جانب سے مارکیٹ میں ڈالر فراہم کرنے کے عمل کی وزارت خزانہ اور خود مرکزی بینک نے بھی تردید نہیں کی۔
مزید پڑھیں:سندھ میں کورونا پابندیاں نرم، کاروبار مکمل بحال، ہوٹلوں کو ڈائننگ کی بھی اجازت مل گئی