حادثے سے بڑا سانحہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اس ماں کی آنکھیں آنسو بہا بہاکرپتھراگئی تھیں اور باپ کا کلیجہ پھٹ چکا تھا ، 17 سال سےجسے ابھرتا دیکھ کر ماں کی آنکھوں میں ٹھنڈک پہنچتی تھی اور بیٹے کو اپنے قد کے برابر دیکھ کر باپ کا سینہ فخر سے پھول جاتا تھا، ان دونوں ہستیوں کیلئے جوانی کی  دہلیز پر قدم رکھتے بیٹے کی المناک موت ایک انتہائی بڑا سانحہ تھی۔والدین کے لبوں پر ایک ہی بات تھی کہ خدایا ایسا قہر ڈھانے سے پہلے ہمیں موت دے دیتا۔17 سالہ زین کی سربریدہ لاش نے سننے والوں پر ایک لرزہ طاری کردیا تھا اور جس نے دیکھا وہ حواس کھوبیٹھا۔

ہفتہ 18 اور اتوار 19 دسمبر کی درمیانی شب کورنگی میں ایک المناک ٹریفک حادثے میں 17سالہ نوجوان زین کی درد ناک موت نے ٹریفک حادثات کے حوالے سے تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق کراچی میں ٹریفک حادثات میں اموات کی شرح دہشت گردی کی نذر ہونے والے شہریوں سے کئی گنا زیاہ ہے۔

کراچی میں یومیہ درجنوں ٹریفک حادثات میں کئی شہری موت کی تاریک وادیوں میں اتر جاتے ہیں اور بے شمار شہری عمر بھر کیلئے معذوری کا روگ لگابیٹھتے ہیں۔ موٹرسائیکل حادثات کی شرح سب سے زیادہ ہے جبکہ بھاری بھرکم ٹریفک مثلاً ٹرک اور ڈمپر وغیرہ کے حادثات بھی بہت زیادہ ہیں۔

پولیس حکام جہاں یہ انکشاف کرتے ہیں کہ حادثات میں شرح اموات بہت زیادہ ہے تو وہیں یہ اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ ان حادثات میں ٹریفک اہلکاروں کی غفلت بھی ایک بہت اہم وجہ ہے اور والدین حادثات میں بچوں کی موت کیلئے کسی کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے نوجوان کیونکر ماں باپ کی نظروں سے اوجھل ہوکر جوانی کے نشے میں موت کو دعوت دے رہے ہیں ۔

ہمارے معاشرے میں آج تربیت کا بہت بڑا فقدان پایا جاتا ہے، ماضی میں لوگوں کو یہ علم نہیں ہوتا تھا کہ کونسا محلہ دار آپ کا سگا حقیقی رشتہ دار ہے اور کون نہیں بلکہ ہر کوئی آپ کو اپنا سا محسوس ہوتا تھا اور ہر بڑے کا احترام ہوتا تھا ، لوگ بزرگوں کی بات سنا کرتے تھے اور آج کے نوجوان باہر تو درکنار، گھر میں کسی کی سننے کے روا دار نہیں ہوتے ۔ ایسے میں ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ غلطی کہاں ہوئی جو ہمارا معاشرے اس درجہ زوال کو پہنچ گیا ہے۔

کہتے ہیں کہ جس شخص کا کوئی اپنا یہ دنیا چھوڑ کرچلا جاتا ہے اس کے دکھ کا اندازہ کوئی نہیں لگاسکتا۔ یہ حقیقت ہے۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حادثہ ایک کو سیکھ سب کو۔ بقول شخصے:

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سڑک کرتب دکھانے،ریس لگانے یا موت کو گلے لگانے کیلئے نہیں ہے اور موٹرسائیکل کی سواری ایک سہولت ہے ، جس کا غلط استعمال ہمیں موت کے منہ میں دھکیل سکتا ہے گوکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن زندگی بھی ایک انمول نعمت ہے اور اس نعمت کو محض ایک چھوٹی سی شرارت کی نذر کرنا کسی صورت درست نہیں ہے۔

حادثات کیلئےٹریفک پولیس سب سے زیادہ ذمہ دار سمجھی جاتی ہے۔وہ یوں کہ آج آپ کسی بھی سڑک پر نکل جائیں ،آپ کو ٹریفک کنٹرول کرنے کیلئے کم اور شکار گھیرنے کیلئے زیادہ اہلکار نظر آئیں گے ، ٹریفک پولیس نظام چلانے کے بجائے صرف چالان اور ذاتی مال بنانے کی حد تک مصروف دکھائی دیتی ہے۔ چاہے کتنا ہی ٹریفک جام ہو ،کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

راقم جوانی کی سرحدوں کو عبور کرنے کے قریب ہے اور اپنے بچے کندھوں کے قریب آچکے ہیں لیکن آج بھی گھر سے باہر ہوں تو اپنی ماں فکر مند نظر آتیہے لیکن سمجھ سے بالاتر ہے  کہ آج کل کے والدین کیسے اپنے بچوں کو اس درجہ آزادی دے دیتے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بچے کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں۔جوان اولاد کی موت کا دکھ جس پر گزرتا ہے وہی جانتا ہے اور ایسے کرب سے گزرنے سے بہتر ہر ماں باپ کی یہی دعا ہوتی ہے کہ الٰہی ایسے وقت سے پہلے ہمیں موت دیدے ۔

زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے لیکن زندگی کو کسی غیر اہم شوق کی نذر کردینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹریفک اہلکاروں سمیت معاشرے کا ہر فرد ملک کیلئے اپنے کردار کی اہمیت کو سمجھے اور غیر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کی بجائے اپنے فرائض کی ادائیگی کو اہمیت دے۔ صرف اسی صورت میں ایسے حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔

Related Posts