گیٹ نمبر4 کا فلسفہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

گیٹ نمبر4 کا ملکی سیاست میں اہم کردار رہا ہے اور تحریکِ انصاف کی حلیف سیاسی جماعت عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد راولپنڈی میں مقیم ایسے زیرک سیاستدان ہیں جن کا کوئی ثانی نہیں۔

ویسے تو ہر سیاست دان کا کوئی نہ کوئی ثانی ضرور ہوا کرتا ہے تاہم شیخ رشید احمد اپنے بلند بانگ دعووں، پیشگوئیوں کے پورا نہ ہونے اور سیاسی مرچ مصالحے سے بھرپور بیانات کیلئے منفرد شہرت کے حامل ہیں۔

لڑائی نہ کرنے کا اعلان

وفاقی کابینہ میں ماضی قریب سے بھی اور ماضی بعید سے بھی شیخ رشید کی موجودگی کی روشن مثالیں دی جاسکتی ہیں اور ان کے بیانات ہر گزرتے روز کے ساتھ نت نئی تراکیب اور پیش گوئیوں سے معمور نظر آتے ہیں۔

حال ہی میں شیخ رشید نے بیان دیا کہ میں نے ہمیشہ گیٹ نمبر 4 کا ساتھ دیا لیکن مجھے نظر لگ گئی۔ چلے کے دوران میرے خلاف ایسے شہروں میں مقدمات درج ہوئے جہاں میں کبھی گیا ہی نہیں، چلے کے اثرات ابھی ختم نہیں ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں:

مودی حکومت پر جاسوسی کا الزام

سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ ابھی کوئی یہ نہیں سمجھ پا رہا کہ ملکی سیاست کس طرف جارہی ہے، فیصلہ عوام کریں گے اور عوام سیاست دانوں سے زیادہ سمجھ دار ہیں۔ نواز شریف کو کب نظر لگتی ہے، اس کا میں انتظار کروں گا۔

میدانِ سیاست میں شیخ رشید وہ پہلا شہسوار نہیں ہے جس نے گیٹ نمبر 4 کا نام لیا بلکہ جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4 کا تذکرہ اکثر وبیشتر سیاسی قائدین سے سننے کو ملتا رہتا ہے اور اس سے زیادہ تر اسٹیبلشمنٹ کا ذکرِ خیر ہی مقصود ہوا کرتا ہے۔

مارچ 2022 میں مالاکنڈ میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی پی پی اور سابق وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زردای نے کہا کہ میں کالا کوٹ پہن کر عدالت نہیں جاؤں گا۔ میں گیٹ نمبر4 نہیں کھٹکھٹاؤں گا۔

بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہنا تھا کہ ”قائدِ عوام نے ہمیں سکھایا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو اسی عوام کی طاقت سے ہم کٹھ پتلی کو بھگائیں گے“۔  تاہم اپریل 2022 میں عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد لا کر ہٹایا گیا، اس میں گیٹ نمبر4 کی مدد حاصل تھی یا نہیں، اس سے قطعِ نظر عوام کی مدد نہیں لی گئی۔

ہاں، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوامی نمائندوں نے باضابطہ اتحاد کرکے ملک کے ایک منتخب وزیر اعظم کو ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئینی طریقہ کار کے تحت وزارتِ عظمیٰ سے محروم کردیا اور یوں ایک نئی اور منفرد تاریخ رقم ہوئی۔

یہاں ہمارا موضوع یہ نہیں کہ عمران خان اچھا وزیر اعظم تھا یا برا؟ بلکہ ہمارا موضوع گیٹ نمبر 4اور موجودہ سیاستدانوں کے ہاں اس کا ذکرِ خیر ہے بلکہ یہ ذکرِخیر سیاسی تجزیہ کاروں کے ہاں بھی جابجا دیکھنے کو ملتا ہے۔

مقامی روزنامے کی ایک ویب سائٹ پر شائع عمران یعقوب خان کے ایک مضمون میں بھی گیٹ نمبر 4 کا ذکر ملتا ہے جہاں انہوں نے کہا کہ ”اسٹیبلشمنٹ نے گیٹ نمبر4 بند کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر عمران خان کو انتخابی اصلاحات چاہئیں تو انا کے گھوڑے سے اتر کر مذاکرات کا راستہ اپنانا ہوگا“۔

گویا گیٹ نمبر4 کا فلسفہ کچھ یوں ہے کہ اگر آپ مذاکرات کا راستہ نہیں اپنانا چاہتے اور اسٹیبلشمنٹ سے مدد لینا چاہتے ہیں تو گیٹ نمبر 4 کے راستے سے جا سکتے ہیں، لیکن اسٹیبلشمنٹ اس کا راستہ خود ہی بند کرچکی ہے۔

عمران خان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد پی ٹی آئی کے الزامات اور آئی ایس پی آر کے جوابات کے تناظر میں بھی دیکھا جائے تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ گیٹ نمبر 4 واقعی بند ہوچکا، تاہم ملکی سیاست پر اس کے دور رس اور طویل المدت اثرات  و مضمرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔

Related Posts