لڑائی نہ کرنے کا اعلان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لڑائی نہ کرنے کا اعلان سامنے آگیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 3 ماہ بعد ملک بھر میں عام انتخابات کا اعلان کررکھا ہے۔ پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں کا ماننا ہے کہ اگر تحریکِ انصاف کو انتخابات میں شمولیت کی اجازت نہ مل سکی تو عوام انتخابات کے نتائج کو قبول نہیں کریں گے۔

گزشتہ روز پاکستانی میڈیا کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ہم کسی ریاستی ادارے سے نہیں لڑیں گے ، نہ ہی سویلین بالادستی بالمقابل اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ لے کر آئندہ الیکشن لڑنے کا کوئی فیصلہ ہوا ہے۔

سیکریٹری اطلاعات پی ٹی آئی رؤوف حسن کا کہنا تھا کہ ہم پارٹی وکیل بیرسٹر گوہر خان کے بیانیے سے اتفاق نہیں کرتے جس میں مذکورہ بالا بیانیے کا سہارا لیا گیا ہے۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ ہم الیکشن میں ملک کو ریاستِ مدینہ کے اصولوں کے تحت اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے عزم کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔

آج سے 2 روز قبل چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات ہوئی تھی جس میں انتخابات کی تیاریوں پر بات چیت ہوئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملاقات کا اعلامیہ بھی جاری کیا۔

اعلامیے کے مطابق چیف الیکشن کمشنر انتخابات کی تیاریوں پر وزیر اعظم کو بریفنگ دے رہے تھے جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ 8فروری 2024 کے عام انتخابات کیلئے تمام ضروری تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔

دوسری جانب ایس پی اڈیالہ جیل نے عمران خان کی بیٹوں سے ملاقات نہ کروانے پر توہینِ عدالت کے نوٹس پر سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان کی بیٹوں سے بات نہیں کروائی جارہی۔

ایس پی اڈیالہ جیل نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ 18 اکتوبر کو خصوصی اقدامات کرکے عمران خان کی بیٹوں سے بات کروائی گئی، تاہم واٹس ایپ پر بیرونِ ملک مستقل بات چیت کی سہولت جیل میں دستیاب نہیں ہے۔

بدھ کے روز سابق وزیر اعظم نواز شریف کا یہ بیان بھی نظر سے گزرا کہ شہباز شریف کو وزیر اعظم اس وقت بنایا گیا جب ملک عملاً دیوالیہ تھا، مہنگائی کس کے دور میں ہوئی اور کس نے بجلی مہنگی کی تھی؟

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ سب سے زیادہ قرض کس نے لیا؟ یہ سب کچھ ہم نے تو نہیں کیا۔ ہمیں معاشی ترقی چاہئے تو دوہری رفتار سے کام بھی کرنا ہوگا۔ ہم نے کبھی کسی علاقے سے امتیاز نہیں برتا، نہ ہی برتا جائے گا۔

نواز شریف کی وطن واپسی وہ اہم نکتہ ہے جس کے بعد سے ملکی سیاست میں تھوڑی بہت حرکت پیدا ہوئی ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے انتخابات کی تیاریاں بھی جاری ہیں اور ادھر ایم کیو ایم اور دیگر جماعتیں بھی انتخابات میں کامیابی کے نت نئے طریقوں پر غور کر رہی ہیں۔

ایسے میں پی ٹی آئی کا یہ بیان کہ ”ہم کسی ریاستی ادارے سے نہیں لڑیں گے بلکہ الیکشن میں قدم رکھتے وقت اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنے کیلئے ریاستِ مدینہ کے اصول پیشِ نظر رکھے جائیں گے“ کسی واضح اشارے سے کم نہیں۔

ماضی میں ایسے ہی اشارے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے بھی اسٹیبلشمنٹ کیلئے دئیے جاتے رہے ہیں۔ آج کی سیاست کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کو عام انتخابات میں اسی شدومد کے ساتھ حصہ لینے کی اجازت دی جائے گی، جیسا کہ دیگر پارٹیوں کو حاصل ہے؟

Related Posts