مودی حکومت پر جاسوسی کا الزام

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مودی حکومت پر جاسوسی کا الزام لگایا جارہا ہے۔ حالیہ تخمینوں کے مطابق چین کے بعد دنیا کی سب سے زیادہ آبادی 1اعشاریہ 37 ارب نفوس پر مشتمل پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت نے متعدد شعبوں میں ترقی کی ہے۔

آج بھارت اپنے جی ڈی پی کے اعتبار سے دنیا کی چھٹی بڑی اور عوام کی قوتِ خرید کے اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی اقتصادی طاقت بن چکا ہے۔ بھارت کی 80فیصد سے زائد آبادی ہندو دھرم سے جبکہ باقی 20فیصد دیگر مذاہب سے تعلق رکھتی ہے۔

انہی 80فیصد ہندوؤں میں اور دیگر مذاہب بشمول اسلام کے ماننے والوں میں بھی ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو کسی مذہب یا خدا کو نہیں مانتے اور ہندو مت کی کثیر آبادی کے مذہبی رجحانات کے باعث ایک بڑی آبادی گوشت کی بجائے صرف سبزیاں کھانا پسند کرتی ہے۔

مودی حکومت پر بے شمار الزامات ہیں جن میں سے 90فیصد درست اور باقی 10فیصد سیاسی اور بے بنیاد ہوسکتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا الزام ہندوتوا کی پیروکاری، شدت پسندی اور قدامت پرست پالیسیوں کو فروغ دینا ہے اور یہ بہت حد تک درست بھی ہے۔

ایک اور الزام مودی حکومت پر مسلم دشمنی، مسلم کش فسادات اور دیگر اقلیتوں کیلئے بھی معاندانہ پالیسی کا نفاذ ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کا جینا اجیرن ہوچکا ہے۔ یہ الزام کس قدر سچ ہے، یہ دیکھنے کیلئے خود بھارت کے وہ اخبارات دیکھ لیجئے جو ایک بڑی تعداد میں اردو زبان میں ہی شائع ہوتے ہیں۔

بلاشبہ اخبارات شائع کرنے اور ٹی وی چینلز پر بات کرنے کیلئے سب سے زیادہ رائج زبان تو ہندی ہی ہے جو دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے تاہم عوام کی ایک بڑی تعداد آج بھی اردو زبان بولتی اور پسند کرتی ہے جن میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں اورسکھوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔

دلچسپ طور پر بھارت میں اردو زبان کی صحت، املا اور گرامر کا جس قدر خیال رکھا جاتا ہے، پاکستان کے بے شمار علاقے آج بھی اس سے محروم ہیں، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں اردو زبان کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہاں اس ذکر کا مقصد محض اتنا ہے کہ اردو کے قدر دان بھارت میں بھی پائے جاتے ہیں۔

موجودہ دور میں سب سے بڑا کارنامہ جو مودی حکومت نے انجام دیا وہ جی 20 کی میزبانی کہا جاسکتا ہے جس میں پاکستان شریک نہ تھا، حالانکہ بقول ہمارے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے، پاکستان کو جی 20 کی کانفرنس میں ہونا چاہئے تھا اور اگر ن لیگ کی حکومت ہوتی تو شاید ایسا ممکن بنا بھی لیا جاتا۔

حال ہی میں اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ کانگریس رہنما راہول گاندھی، ایس پی کے سربراہ اکھلیش یادو، اے اے پی لیڈر راگھو چڈھا اور ترنمول کانگریس کی رکنِ پارلیمان مہوا موئترا نے مودی حکومت پر تنقید کے نشترچلائے۔

تمام اپوزیشن لیڈروں کا ماننا ہے کہ مودی حکومت جاسوسی میں ملوث ہے اور یہ جاسوسی حکومت چھن جانے کے خوف سے کی جارہی ہے۔ جواباً مودی حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ معاملے کی تحقیقات کرائی جانی چاہئیں، جو ظاہر ہے کہ مودی حکومت خود کرے گی۔

نریندر مودی حکومت کا کہنا ہے کہ الزامات بے بنیاد ہیں تاہم خاتون رکنِ پارلیمنٹ مہوا موئترا نے اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ  مجھے ایپل سے ایک ٹیکسٹ اور ای میل موصول ہوئی ہے کہ حکومت میرے فون اور ای میل کو ہیک کرنے کی کوشش میں ہے۔

ایک اور رہنما پریانکا چترویدی نے بھی ایسا ہی اسکرین شاٹ شیئر کیا اور کہا کہ  مودی حکومت کو شرم آنی چاہئے۔ کچھ ایسے ہی بیانات دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے بھی دئیے جس سے پتہ چلتا ہے کہ نریندر مودی کی راتوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔

شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ مودی حکومت کو آئندہ عام انتخابات میں اپوزیشن اتحاد ”انڈیا“ سے ہار جانے کا خوف لاحق ہوچکا ہو جس کی کچھ وجوہات حقیقت کے بہت قریب بھی نظر آتی ہیں۔ سچ کیا ہے، یہ تو انتخابات کے بعد ہی سامنے آسکتا ہے۔

 

Related Posts