حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے آباء و اجداد سے چلی آنے والی اونٹوں کی زبان عالمی ورثہ قرار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اونٹوں کے ساتھ رابطے کی زبان جسے “الحداء” کہا جاتا ہے کو یونیسکو کی غیر محسوس ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ زبان اونٹوں اور سعودی عرب کے باشندوں کے درمیان گہرے روایتی تعلقات کی عکاسی کرتی ہے ۔ زبان ایک لوک ورثہ کے طور پر اونٹ اور ان کے مالکان کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔

“الحذاء” کے تاریخی سفر میں ہنر مند چرواہا اپنی آواز کا استعمال کرتے ہوئے اونٹوں کو پرسکون کر سکتا ہے اور انہیں صحرا کی وسیع ریت سے گزر کر اپنے حکم کی تعمیل پر راغب کر سکتا ہے۔ اس طرح صحرا کی تاریکی میں بھی یہ زبان ایک سہارا بن جاتی ہے۔ ریت کے ذروں پر، حدی خواہوں کے نعروں اور بدوؤں کے گیتوں کی گونج، نعرے کے بعد آواز یا اونٹ کی پکار کی محض سرگوشی شاعرانہ گانے میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اونٹوں کی اس ’’ حدی‘‘ میں مٹھاس کو ملایا گیا ہے۔ اس ترانے میں آواز، شاعری ، بیان کا جادو، معانی کی فراوانی بدوؤں کے ماحول اور ان کی ثقافت سے ماخوذ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

روسی توانائی کی خریداری پر پاکستان دوست ممالک کی کرنسی میں ادائیگی کریگا، روسی وزیرِ توانائی

’’الحداء‘‘ کی تاریخ

کہا جاتا ہے کہ ’’الحداء‘‘ کو سب سے پہلے ادا کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا مضر بن نزار تھے۔ اونٹ سے اترتے ہوئے ان کے ہاتھ پر چوٹ آئی تو انہوں نے درد سے کراہتے ہوئے جو الفاظ پکارے وہ ’’ وایداہ، وایداہ‘‘ کے تھے۔

یہ الفاظ سن کر اونٹ ان کے گرد جمع ہوگئے اور ان کے ساتھ چلنے کے طلبگار دکھائی دئیے۔ اس کے بعد انہیں اونٹوں کو مخاطب کرنے ، پکارنے اور قریب بلانے کے لیے انہیں الفاظ کے استعمال کا خیال آیا۔ انہوں نے اونٹوں کو مخاطب کرنے کے لیے ان الفاظ کا استعمال شروع کردیا۔

قدیم عربوں نے ’’ الحداء‘‘ کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ۔’’ حداء الاوب‘‘ اور ’’حداء الورد‘‘ ۔ پہلی حدی ان کو گھروں جہاں ان کا کنبہ اور پانی ہوتا ہے کی طرف واپس بلانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ دوسری قسم کنویں کے گرد جمع ہونے اور پانی پلانے کے عمل کے آغاز کے وقت استعمال ہوتی ہے۔ یہ آواز سن کر اونٹ پانی کے مقام کی گرد منڈلاتے ہوئے آجاتے ہیں۔

Related Posts