جامعہ کراچی میں سندھ بینک کے بجائے نجی بینکوں کو نوازنے کا ہوشربا انکشاف

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جامعہ کراچی میں حکومتی احکامات کے برعکس سرکاری بینک کے بجائے نجی بینک میں رقم رکھ کر حکومت سندھ اور دارے کو نقصان پہنچایا گیا ہے، جون میں آنے والے 320ملین روپے سندھ بینک کے سیونگ اکائونٹ سے نکال کردیگر تین نجی بینکوں کے کرنٹ اکائونٹ میں یوٹیلائزیشن کے نام پر منتقل کر دیئے گئے، یونائیٹڈ بینک میں 220ملین، نیشنل بینک میں 100ملین اور حبیب بینک لمیٹیڈمیں 50ملین روپے منتقل کیئے گئے ہیں۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد حکومت سندھ کی جانب سے سرکاری اداروں کو مراسلے جاری کئے گئے تھے کہ اپنی ٹرانزیکشن سندھ بینک میں کریں گے اور اکائونٹنٹ جنرل سندھ کی جانب سے بجٹ میں مختص رقم اور مخصوصی گرانٹ سندھ بینک میں ہی جاری کی جائے گی اوراسی بینک سے ہی رقم یوٹیلائز کی جائے گی۔

دستاویزات کے مطابق اکائونٹنٹ جنرل سندھ کی جانب سے 13جون کو سندھ بینک کراچی یونیورسٹی ایڈمن برانچ کے اکائونٹ نمبر PK78SIND0003734868282000میں 31کروڑ77لاکھ 50ہزار بھیجے گئے، جس کے بعد 17جون کو آئی ڈی نمبر 36142950کے تحت 10کروڑروپے نیشنل بینک ایڈمن برانچ، 36142951کے ذریعے 2کروڑ روپے حبیب بینک لمیٹڈمیں اور 22کروڑ روپے یونائیٹڈ بینک کے اکائونٹ میں منتقل کر دیئے گئے۔

حیرت انگیز طو رپر مذکورہ رقم کی منتقل سیونگ اکائونٹ سے کرنٹ اکائونٹس میں یوٹیلائزیشن کے نام پر کی گئی ہے، جبکہ سیونگ اکائونٹ سے بھی یوٹیلائزیشن کی جاسکتی تھی، اس کے علاوہ موجودہ انتطامیہ کے آنے کے بعد اعلی تعلیم کے حالیہ داخلوں میں بھی سندھ بینک کے بجائے نجی بینک کو نوازا جارہا ہے، جس میں جامعہ کی انتظامیہ نے ASRBمیں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگراموں کی بھاری بھرکم فیسوں سمیت KUBSکی eMBAکی فیسیں بھی سندھ بینک میں لینے کے بجائے UBLمیں وصول کی ہیں ۔

معلوم رہے کہ موجودہ انتظامیہ کے آنے کے بعد 29مارچ کو سندھ بینک کے سی ای او عمران صمد نے اپنے افسران کے ہمراہ عبوری وائس چانسلر و ان کی انتظامیہ سےملاقات بھی کی تھی۔ جس میں بعض غلطیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، تاہم اس کے باوجود معاملات جوں کے توں ہیں۔

26ستمبر 2019 میں سیکرٹری جامعات اینڈ بورڈز کے دفتر سے ایک خط وائس چانسلر کے نام جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ جتنے بھی فنڈز نجی بینکوں میں ہیں وہ فی الفور سندھ بینک کراچی یونیورسٹی کی برانچ میں منتقل کریں اور اس کے علاوہ تمام رقوم کی لین دین سندھ بینک کے اکائونٹ سے کی جائے گی۔

جس کے بعد 25نومبر 2019کو گورنمنٹ سندھ کے پرنسپل اکائونٹ کے ایڈمنسٹریٹیو سیکرٹری کی جانب سے جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ کیبنٹ میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ سنگل لائن ٹرانسفر، امداد اور بجٹ کی مختص رقم سمیت کسی بھی نوعیت کی گرانٹ صرف سندھ بینک میں رکھی جائے گی۔

جامعہ کراچی میں نجی بینکوں کو نوازنے کا سلسلہ اس کے علاوہ بھی جاری ہے، جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جامعہ کراچی کی سنڈیکیٹ کے2020کے فیصلے کی روشنی جامعہ کراچی میں واقع UBL، نیشنل بینک اور HBLسمیت سندھ بینک سے کئے گئے پرانے معاہدے ختم کرکے نئے معاہدے کرنے تھے، اس فیصلے کی روشنی میں ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم نے تمام بینکوں کو خط لکھ کر نئے معاہدے کرنے کا کہا تھا، جس کے بعد موجودہ انتظامیہ کے آنے کے ساتھ ہی سابق فیصلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ سمسٹر ، داخلہ اور دیگر فیسیں انہی نجی بینکوں میں لینا شروع کردی گئی ہیں۔

جامعہ کراچی کے اساتذہ کے فنڈزبھی نجی بینکوں کو دیئے گئے ہیں ، یو بی ایل کے پا س جامعہ کراچی کے 10کروڑ روپے Providentفنڈکی مد میں8برس کیلئے رکھے گئے تھے ،جو جون 2021میں میچور ہو گئے، جس پر UBLنے جامعہ کو ساڑھے 9فیصد کےتناسب سے منافع دیا گیا ہے جبکہ12مئی 2016کوUBLکے آپریشن منیجر نے جامعہ کراچی کے ڈائریکٹر فنانس کو ایک خط لکھا کہ Providentفنڈ کو 8سال کیلئے بینک میں رکھنے پر ہم 14.89فیصد اور 10کروڑ روپے رکھنے پر 17.39فیصد منافع دیں گے ، جبکہ جون 2021میں ساڑھے9فیصد کے حساب سے منافع دیا گیا ہے، ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم نے اس حوالے سے متعلقہ بینک کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ ڈائریکٹر فنانس کی مذکورہ خاموشی معنی خیز ہے۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کو نوازنے کیلئے ڈائریکٹر فنانس کے ماتحت انچارج ڈیٹا بیس ایڈمنسٹریٹر مشرف بھی پیچھے نہیں رہے، فیس ٹریکنگ سیل نے ڈیپارٹمنٹس کو ہدایات دی ہیں کہ وہ آن لائن کے بجائے مینول فیس لیں گے، جس کےلئے جاری کردہ وائوچر UBLکے ہیں، جن میں مینول فیس اسی نجی بینک میں لی جارہی ہے ۔جب کہ اس بینک کے کرنٹ اکائونٹ میں ہی فیسیں لی جار ہی ہیں۔

واضح رہے کہ نجی بینکوں کو نوازنے سے بینک کے آپریشن منیجر سے لیکر ماتحت ملازمین تک کو ہیڈ آفس کی جانب سے کمیشن اور بونس دیا جاتاہے کہ وہ سیونگ کے بجائے زیادہ سے زیادہ رقم کرنٹ اکائونٹ میں لیکر آئیں جس کی وجہ سے بینکوں کی انتظامیہ و آپریشن منیجرز کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کرنٹ اکائونٹس میں زیادہ سے زیادہ پیسہ لیکر آئیں جس کے لئے جامعہ کراچی جیسا 40ہزار سے زائد افراد سے پیسے دلوانے والا زرخیز صارف کون ہو سکتا ہے؟

تاہم ذرائع سے معلوم ہو اہے کہ اس حوالے سے دستاویزی ثبوت ایف آئی اے بینکنگ سرکل سمیت نیب کے متعلقہ حکام کو بھیج دیئے گئے ہیں تاکہ ان حوالے سے تحقیقات کی جائیں اور انکوائری کی جائے۔

اس حوالے سے قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر مقصود انصاری نے رابطہ کرنے پر موقف اپنایا کہ طلبہ کی فیسیں جمع کرنے کیلئے جتنے بھی بینک استعمال ہوں اتنا ہی کم ہیں کیونکہ طلبہ کو سہولت ہونی چاہئے کہ وہ گھر کے قریبی کسی بھی بینک میں فیسیں جمع کرا سکیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جامعہ کی زیادہ تر رقوم نیشنل بینک اور سندھ بینک میں ہی جمع ہوتی ہیں اور تنخواہوں کیلئے جس جس کے اکاونٹس جہاں ہوتے ہیں ان کو وہاں تنخواہیں دی جاتی ہیں، تاہم مزید تفصیل ڈائریکٹر فنانس دے سکتے ہیں۔ جس پر ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔ ان کا اور متعلقہ بینکوں کا موقف معلوم ہونے پر شائع کر دیا جائے گا۔

Related Posts