اسٹاک مارکیٹ اور تیل کی قیمتیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج کے معاشی جنگ کے دور میں عالمی معیشت کے مستقبل کی پیش گوئی چین اور امریکا کی معیشتوں کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہےکیونکہ یہ دونوں ممالک عالمی سطح معاشی سرگرمیوں کا رخ متعین کرتے ہیں اور عالمی تجارت براہ راست دونوں عالمی طاقتوں کو متاثر کرتی ہے۔

کورونا وائرس پھیلنے کی خدشات ،اوپیک اور روس کے مابین اتحاد بڑھنے کے بعد عالمی منڈیوں میں ایک بار پھر سست روی دیکھنے میں آرہی ہے، اس خرابی کے باعث گزشتہ روز تیل کی قیمتیں تقریبا 30 فیصد تک گر گئیں جو قریب تیس سال میں سب سے بڑی کمی ہے،کلیدی اتحادی روس کی جانب سے پیداوار کو مزید کم کرنے کے منصوبے کو مسترد کرنے کے بعد سعودی عرب نے ایک آؤٹ پرائس وار کا اعلان کیا ہے۔ایسے میں اسٹاک مارکیٹ معیشت کی حالت کی عکاس ہے۔

یہ سب اس وقت شروع ہوا جب چینی شہر ووہان میں مہلک کورونا وائرس کی تشخیص پہلی بار ہوئی اور اس میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہوا اور اب اس نے پوری دنیا کے 48 ممالک کو متاثر کیا ہے۔ اس مہلک وائرس نے چین کی تجارت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ چین کی معاشی نمو 2020 کی پہلی سہ ماہی میں 4.5 فیصد ہوگئی ہے۔ زیادہ تر چینی صنعتوں نے یا تو پیداوار بند کردی ہے یا صلاحیت سے کم کام کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں تیل کی کھپت اور درآمد حیران کن سطح پر گراوٹ دیکھی گئی ہےکیونکہ چین دنیا کا سب سے بڑا تیل درآمد کنندہ ہے۔ کورونا وائرس نے تیل کے دیگر درآمد کنندگان اور تیل سے متعلقہ صنعتوں پر انحصار کرنے والے ممالک کو بھی متاثر کیاجس سے تیل کی عالمی طلب اور رسد عدم توازن کا شکار ہوگئی ہے۔

موجودہ صورتحال کے تناظرمیں تیل پیدا کرنے والے ممالک کے درمیان مسابقت کانیا تنازعہ سامنے آیا۔ سعودی عرب نے روس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پیداوار 1.5 ملین بیرل کم کرے تاہم روس نے اوپیک کے ذریعہ گذشتہ ہفتے تجویز کردہ پیداوار میں کمی کی حمایت نہیں کی۔

یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے فروخت کی قیمتوں میں تخفیف کی اور اگلے ماہ خام پیداوار میں اضافے کا منصوبہ بنایاہے۔ روس نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ ان کے پاس تیل کے 560 بلین ٹن ذخائرموجود ہیں۔ اس فیصلے کی وجہ سے عالمی مارکیٹ بری طرح متاثر ہوئیہے، اگر دونوں ممالک جلد ہی معاہدہ نہیں کرتے ہیں تو تیل پر منحصر ممالک کی معیشتیں بری طرح متاثر ہوسکتی ہیں۔

تیل کی قیمتوں میں ہونے والی تبدیلیاں پاکستان کے حق میں ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستان کے غیر ملکی ذخائر کا بیشتر حصہ تیل کی ادائیگیوں پر اخراجات ہوتا ہے۔ جب تیل کی قیمتوں میں کمی ہوگی اور موجودہ صورتحال کے مطابق پاکستان کم قیمت پر تیل حاصل کرسکتا ہے جو ملک کے لئے فائدہ مند ہوگا۔ جس کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو کم کیا جاسکتا ہے اور حکومت بجلی اور بہت سے دوسرے شعبوں میں سبسڈی دے سکتی ہے۔

2016 میں بھی جب تیل کی قیمت 26 ڈالر فی بیرل پر تھی تو اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے صورتحال سے فائدہ نہیں اٹھایا اور ریزرو ذخائرمیں اضافہ نہیں کیا۔ پی ٹی آئی کی زیر اقتدار آنے والی حکومت اب وہی پالیسیاں دہرارہی ہے اور ایک بہت بڑا موقع ضائع کرنے کا خدشہ ہے۔

پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر کے قرض کا معاہدہ کیا ہے اور ٹیکس اصلاحات اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے قرض کی ادائیگی کررہی ہے جبکہ حکومت نے ملک کا مالی خسارہ بھی کم کیا لیکن کاروبار میں اضافہ نہیں کیا جس کی وجہ سے افراط زر کا بوجھ معیشت پر بڑھ گیا ہے۔

1960 کی دہائی کے دوران پاکستان کی معیشت کا سنہری دور جب محبوب الحق بطور ماہر معاشیات خدمات انجام دے رہے تھے،انہوں نے 5 سالہ ٹیکس فری پالیسی کا اعلان کرنے کے بعد پاکستان کے دیہی علاقوں میں صنعت کے تناسب میں اضافہ کیا،اس اقدام سے تعلیم ، معیار زندگی اور معاشی لحاظ سے دیہی علاقوں میں بہتری آئی ۔

معاشرے کے غریب ترین طبقے کے سب سے بڑے مسائل بجلی ، صحت اور رہائش ہیں۔ ہم ہمیشہ سنتے ہیں کہ مہنگائی میں اضافے کے لئے حکومت نے کاروباری طبقے کو ہمیشہ مورد الزام قرار دیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کیونکہ لوگ یہاں منافع خوری کو ترجیح دیتے ہیں اور لاگت بڑھنے پر قیمت بڑھ جائے گی۔

یہاں ایک اور تشویش یہ ہے کہ نجکاری سے افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے،یہ بھی سچ ہے۔ نجی کمپنیاں اپنی متعلقہ مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سرکاری اداروں کو مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے کے لئے متعارف کرایا گیا تھا۔ مثال کے طور پر پی آئی اے ہمیشہ مقابلہ میں اپنی قیمت ایئر بلیو اور دیگر ایئر لائنز کے ساتھ طے کرتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آنے والے 70 سالوں تک افراط زر میں مزید اضافہ ہوگا اور روٹی ، کپڑا اور مکان محض ایک کھوکھلا نعرہ ہی رہے گا۔

Related Posts