میرے کپتان کے رنگ نرالے۔۔۔

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کی سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ممکن ہے، دیرینہ مخالفین کوہم نے باہم شیر و شکر ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور ہمنواؤں کو بیوفائی کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے۔

یہ درست ہے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے لیکن پاکستان میں جمہوریت کو جمہوریت کہنا شائد جمہوریت کی توہین ہے کیونکہ یہاں مخالفین کو توڑنے کو وکٹیں گرانا کہا جاتا ہے اور جب کوئی اپنی وکٹ گرائے تو اسے ضمیر فروشی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

زیادہ دور نہیں 2018ء کے انتخابات کی ہی بات کی جائے تو عمران خان کو 22 سال کی جدوجہد کے بعد بڑی کامیابی ملی لیکن یہ حکومت بنانے کیلئے عددی برتری نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے سب سے پہلے آزاد الیکشن لڑ کر آنے والوں کی وفاداریاں تبدیل کروائیں اور اس مقصد میں اُن کے دیرینہ دوست جہانگیر ترین پیش پیش رہے اور پی ٹی آئی کارکنان بڑے فخر سے کہتے تھے کہ ہمارا شیر ایک اور بندہ توڑ لایا ۔

آج اگر سندھ ہاؤس میں نوٹوں کی بوریاں بانٹی جارہی ہیں تو اس وقت جہانگیر ترین کونسی ٹافیا دیکر لوگوں کو بہلاتے تھے وہ بھی شائد نوٹوں کا منہ دکھا کر ہی موڈ بناتے تھے لیکن اس وقت عمران خان وزیراعظم بننے کیلئے تمام اصول ضابطے بھلا بیٹھے تھے۔ وہ عمران خان جو آزاد امیدواروں کیلئے یہ رائے رکھتے تھے کہ آزاد امیدوار بکاؤ مال ہوتے ہیں اور جیتنے کے بعد ان کی بولیاں لگتی ہیں تو خود کیا عمران خان نے وزیراعظم بننے کیلئے بولیاں نہیں لگائیں؟

ق لیگ کو ڈاکوؤں اور ایم کیوایم کو دہشت گردوں کی جماعت کہنے والے عمران خان صرف اقتدار کیلئے کبھی چوہدری شجاعت کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہیں تو کبھی ایم کیوایم کے لوگوں کو نفیس قرار دیتے ہیں لیکن سب سے بڑی غلطی جو انہوں نے کی وہ تھی اپنوں کو نظر انداز کرنا۔

عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد انتہائی متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور وزیراعظم کے منصب تک پہنچانے والے ساتھیوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور اقتدار کے نشے میں اتحادیوں کو بھی استعمال کرنے کے بعد دوبارہ مڑ کر نہیں دیکھا لیکن وقت کی لاٹھی ایسی گھومی کہ پہلے ساتھیوں نے گھٹنوں کے بل گرایا اور جب مخالفین صف آراء ہوئے تو ساتھی بھی ساتھ چھوڑ گئے۔

عمران خان نے جن لوگوں کے ساتھ پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی آج وہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ ماضی میں چپڑاسی کی نوکری کیلئے نااہل قرار پانے والے شیخ رشید ایک سیٹ کے ساتھ کابینہ میں سب سے طاقتور وزیر، پہلے پرویز مشرف اور پھر بلاول بھٹو کی ترجمانی کرنے والے فواد چوہدری، خزانے کے رکھوالے شوکت ترین، بیرونی محاذ کے نگراں شاہ محمود قریشی، تعلیم کے میدان میں جھنڈے گاڑنے والے شفقت محمود، ملکی دفاع کا بوجھ اٹھانے والے پرویز خٹک، خودکش دھماکے کے خواہشمند غلام سرور خان، صوبو ں کو جوڑ کررکھنے والی فہمیدہ مرزا، معیشت کو بام عروج پر پہنچانے والے عمر ایوب کو حکومت سے ہٹادیا جائے تو عمران خان کے پاس مراد سعید، ناکام ترین اوپنر اسد عمر اور 12 موسم اور کورونا کے 19 نکات والی زرتاج گل ہی بچتی ہیں۔

عمران خان نے چن چن کر ہر سیاسی جماعت سے نگینے جمع کئے کیونکہ پی ٹی آئی میں آنے والا نیک وپارسا اور چھوڑ کر جانیوالا ضمیر فروش ہوتا ہے۔ اگر کپتان وفاداریاں تبدیل کروائے تو وہ جمہوریت کا حسن اور دوسرا کرے تو جمہوریت کے منہ پر کالک ملتا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کی ہی بات کی جائے تو عمران خان کے پاس بادی النظر میں عددی برتری حاصل تھی تاہم جب سیاسی بساط پر پتے بچھے تو کپتان کو پتا چل گیا تھا کہ حکم کا پتہ مخالف کے ہاتھ میں ہے لیکن کپتان جوکروں کے ساتھ ملکر کھیل کو آگے بڑھاتا رہا اور جب بازی پلٹی اور کھیل مخالف کے ہاتھ میں چلا گیا تو اخلاقیات، دھونس دھمکی، ہارس ٹریڈنگ اور نجانے کون کون سے جواز تراش لئے گئے ۔

سندھ ہاؤس میں جو ہوا اگر وہ ہارس ٹریڈنگ اور دھاندلی ہے تو کپتان اتحادیوں کی حمایت کھونے اور ساتھیوں کی بغاوت کے باوجود کیسے عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے پرامید تھا۔ وہ وجہ ہے چوہدری نثار، اعتزاز احسن، مولانا احمد خان شیرانی اور حافظ حسین احمد۔جی ہاں کپتان نے بھی وہی کام کیا جو مخالفین نے کیا ہے۔

کپتان نے چوہدری نثار، اعتزاز احسن، مولانا احمد خان شیرانی اور حافظ حسین احمد کو ن لیگ، پیپلزپارٹی اور مجلس عمل کے ارکان کو توڑنے یا خریدنے کا ٹاسک دیا تھا لیکن بازی اس سے پہلے پلٹ گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:غم کرسی تیرا شکریہ

آصف علی زرداری کو سیاست کا بادشاہ مانا جاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ساڑھے 3 سالوں میں ن لیگ اور مولانا فضل الرحمان پورا زور لگا کر بھی حکومتی صفوں میں کوئی ہلچل نہیں مچا سکے لیکن جونہی آصف علی زرداری میدان میں اترے سارا کھیل تلپٹ ہوگیا ہے لیکن کپتان اب بھی ہار ماننے کو تیار نہیں ہے اور سندھ میں گورنر راج لگانے کی صدائیں بھی بلند ہورہی ہے اور یہ آصف علی زرداری کیلئے مکافات عمل ہے کیونکہ اقتدار کے نشے میں انہوں نے بھی پنجاب میں گورنر راج لگایا تھا۔

ملک کے موجودہ حالات کو ایک کالم میں سمونہ کسی صورت ممکن نہیں ہے ۔ اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی سیاست انتہائی افسوسناک موڑ پر آچکی ہے اور وقت کا تقاضہ یہی تھا کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرکے کپتان خود عزت سے مستعفی ہوکر عوام کی عدالت میں پیش ہوتے اور دوبارہ الیکشن میں جاکر اکثریت کے ساتھ حکومت بناتے لیکن انہیں اپنی کارکردگی کی وجہ سے یہ یقین ہے کہ دوبارہ شائد عوام انہیں کسی صورت منتخب نہ کریں ورنہ ایک کرکٹر کے طور پر مخالف کو دوسری اننگ میں تھکا کر ہرانے کی حکمت عملی زیادہ کارگر ثابت ہوسکتی تھی ۔

Related Posts