غم کرسی تیرا شکریہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

میرے کپتان کیخلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے بعد پاکستان میں ان دنوں چہار سو سیاسی ہیجان سا برپا ہے۔جدھر نظر گھماؤ ہر کوئی میرے کپتان کو کرسی سے ہٹانے کے دعوے کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن میرے ہینڈسم کپتان کی شان ہے کہ وہ ڈٹ کر کھڑا ہے۔

میرے کپتان کو کرسی کا کوئی شوق نہیں اور میرا کپتان ماضی میں ببانگ دہل یہ اعلان کرچکا ہے کہ اگر کسی نے گو عمران گو کا نعرہ لگایا تو اسی وقت گھر چلا جاؤں گا لیکن کیا کریں مانا کہ میرا کپتان بہت ہینڈسم ہے اور ماشااللہ ورزش سے جسم بھی چاک و چوبند ہے لیکن عمر کے ساتھ انسان کی یادداشت بھی کمزور ہوجاتی ہے ورنہ آج ملک کا کونسا شہر ایسا ہے جہاں گوعمران گو کے نعرے نہیں لگے ، یقین کریں اگر میرے کپتان کا حافظہ درست ہوتا تو وہ کب کا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلا گیا ہوتا۔

یہ حافظے کا ہی مسئلہ ہے کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں لیکن آپ بھی تو ہر بات کو سنجیدہ لے لیتے ہیں حالانکہ وہ خود بتاتے ہیں کہ انہیں بشریٰ بی بی یاد دلاتی ہیں کہ خان صاحب آپ وزیراعظم ہیں لیکن کیا کہیے کہ میرے بھولے کپتان خود یہ ماننے کو تیار نہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ان کا لب و لہجہ کسی صورت ایک وزیراعظم کے منصب کے شایان شان نہیں ہے ، اب کیا کریں ہر وقت بشریٰ بی بی ساتھ تو ہوتی نہیں ہیں  جو وقت بے وقت یہ یاد دلائیں کہ اجی سنیئے! آپ وزیراعظم ہیں۔

میرے کپتان کو کرسی سے ہٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے والے یاد رکھیں کپتان کو کرسی کا کوئی شوق نہیں۔ وہ تو مذاق مذاق میں کبھی نوازشریف، کبھی پرویزمشرف، کبھی مولانافضل الرحمان ،قاضی حسین احمد ،کبھی طاہرالقادری اور کبھی پیپلز پارٹی کاساتھ دے دیا، ورنہ کرسی کا کوئی شوق تھوڑی ہے۔

میرے کپتان نے کنٹینر پر بتایا کہ اوئے نوازشریف یہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے؟  اب اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ میرا کپتان وزیراعظم ہوتے ہوئے ذاتی خرچے پر عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے کراچی میں ماضی کی دہشت گرد جماعت ایم کیوایم کے رہنماؤں سے ملنے کیلئے بھی نہ آئے۔ بھئی وزیراعظم ہوتے ہوئے اتنا تو حق بنتا ہے نہ کہ بندہ سرکاری وسائل استعمال کرے اور بھلا سرکار ہوتی کس لئے ہے ؟

جونہی عدم اعتماد آئی میرے کپتان نے حکومت کے آغاز سے روتی بلکتی متحدہ کے سر پر دست شفقت رکھا اور ان کے بعض دفاتر بھی کھول دیئے ہیں اب اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ متحدہ کو ذاتی انتقام کا نشانہ بنایا گیا وگرنہ میرا کپتان ان کے بند دفاتر کیوں کھولتا؟ اور یہ بھی سن لیں کہ میرے کپتان کو کرسی جانے کا کوئی خوف نہیں۔ وہ تو یونہی شغل میں انہوں نے متحدہ سے ملنے کیلئے سرکاری ہیلی کاپٹر نکالا اور سیر کو نکل پڑے اور شاہانہ انداز میں حکم دیدیا کہ جاؤ بیٹا تمہیں تمہارے دفاتر بخش دیئے۔

اب آپ یہ نہ کہئے گا کہ میرے کپتان کو کرسی جانے کا ڈر ہے اسی لئے وہ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکوؤں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ وہ تو میرے کپتان نے کچھ دن پہلے بتایا تھا کہ چوہدری شجاعت بیمار ہیں اس لئے وہ عیادت کیلئے ان سے ملنے گئے ایسا نہیں کہ وہ کسی حمایت کیلئے گئے بلکہ وہ تو یہ بتانے گئے تھے کہ این آر او نہیں دونگا۔

یاد آیا کہ میرے کپتان نے اپنا تکیہ کلام این آر او نہیں دونگا کسی حد تک چھوڑ دیا ہے لیکن گاہے بگاہے این آر او نہیں دونگا کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اب متحدہ کے دوست یہ نہ سمجھ لیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہہ دیا ہے کہ نعرے خواہ کتنے ہی سخت ہوں، کسی صورت جرم نہیں ہوسکتے، تو بانی متحدہ کو بھی این آر او دیدیں گے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔

مانا کہ انہوں نے ماضی کی دہشت گرد ایم کیوایم کو ہاتھ کا پھوڑا بنالیا،پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کے ہم نوالہ ہوگئے تو اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ بانی متحد ہ کو بھی دوست بنالیں۔ ہاں ان کے پاس کوئی سیٹیں ہوتیں تو شائد انہیں بھی معافی مل جاتی لیکن ، یہ نہ سوچنا کہ میرا کپتان کسی کو این آر او دے دے گا۔

اب بندہ اس لیڈر کی کیا بات کرے جس کو اردو نہیں آتی اور کانپیں ٹانگ جاتی ہیں ، نوجوان ہوکر بھی اس کی زبان کبھی ملکوں کی سرحدیں نہیں ملاتی ، کبھی شعلے نہیں اگلتے ، کبھی دشنام طرازی نہیں کرتے ، لیڈر تو میرے کپتان جیسا ہوتا ہے جو منٹوں میں سامنے والے کی ایسی کی تیسی کردے چاہے کتنی بھی بڑی تقریب ہو میرا کپتان منٹوں میں اگلے کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیتا ہے۔

میرے کپتان نے سیاست میں اخلاقیات کے نئے روشن رجحانات متعارف کروائے۔ دنیا بھر میں ہم نے دیکھا کہ پارلیمان میں لوگ کرسیاں تک ماردیتے ہیں۔ توکیا ہواکہ میرا کپتان اگر ذرا کبھی کبھار نامناسب الفاظ کا استعمال کرجاتا ہے، اب بندہ ہینڈسم ہو تو کسی کو کچھ بھی بول دے ، کیا ہوا اگراپوزیشن کودھمکیاں اورچارگالیاں بھی دیدیں تو برداشت کریں کیونکہ بندہ تو ہینڈسم ہے۔

ممکن ہے کہ میرا کپتان ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو اور شوکت عزیز کی طرح تحریک عدم اعتماد سے باآسانی نمٹ لے، لیکن بقول مریم نواز کہ:

کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی دربدر

غم کرسی تیرا شکریہ میں کہاں کہاں سے گزر گیا

Related Posts