نیب ترامیم کا فیصلہ ۔۔۔ بے رحم احتساب وقت کی ضرورت؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کرپشن نے ہماری سماجی، سیاسی اور مذہبی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے  اور بدعنوانی پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

ملک کا کوئی ادارہ کرپشن کے ناسور سے محفوظ نہیں رہا، بدعنوانی ایک سماجی ظلم ہےاور کرپشن کرنے والے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے اورملک سے غداری کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مس پاکستان کون ہیں؟

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وفاقی حکومت کی جانب سے نیب قانون بدلنے کے حوالے سے ترامیم کالعدم قرار دے کر نیب کے پر کاٹنے کی کوشش کو بادی النظر میں ناکام بنادیا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کیس کے حوالے سے انتہائی لچھے دار فیصلہ سنایا ہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی ساکھ، ان کی خوشدامن کی آڈیو لیک، اہلِ خانہ کے دباؤ اور سپریم کورٹ میں 55 ہزار کے لگ بھگ زیر التوا کیسز اور کچھ فیصلوں کی وجہ سے کافی متاثر رہی۔

نیب پر اگر نظر ڈالیں تو جب اس کی بنیاد رکھی گئی اور سیف الرحمٰن نے جو جو کیا اور جیسے کیسز سیاسی مخالفین پر بنائے گئے، پرویز مشرف کے زمانے میں جو پولیٹیکل انجینئرنگ کی گئی وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔اب بھی یہ کہنا کیونکر ممکن ہے کہ نیب فوری اصلاحات کرکے خود کو پاک صاف کرلے گی؟

یہ درست ہے کہ پاکستان میں بھی کرپشن کے حوالےسے سخت قوانین موجود ہیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ہمارے اداروں کو ام الخبائث کے خاتمے کے بجائے سیاسی مخالفین کو دبانے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کا ثبوت سزاؤں کی شرح سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

یہ پلی بارگین ایسا عجیب گورکھ دھندا ہے کہ ہمارے ملک میں موبائل چور،  بکری چور یاجیب کترا پکڑا جائے تو پہلے عام شہری درگت بناتے ہیں پھر پولیس والے اپنا غصہ نکالتے اور آخر میں وہ بے چارہ طویل مدت تک حوالات اور جیل کی ہوا کھاتا ہے۔

اگر کوئی سیاستدان، بیورو کریٹ یا تاجر و صنعت کار پکڑا جائے تو وہ جیل میں کم اور ہسپتال میں زیادہ شاہانہ شب و روز بسر کرتا ہے۔

کرپٹ عناصرلوٹی گئی رقم کا قلیل حصہ پلی بارگین کے ذریعے نیب کودے کر باآسانی چھوٹ جاتے ہیں اور دوبارہ اہم عہدوں پر براجمان ہوکرباقی ماندہ رقم سے عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔اربوں کھربوں روپے لوٹنے کے بعد معمولی رقم کے عوض کرپٹ عناصر اور ان کے خاندان کو پرتعیش زندگی مل سکتی ہے تو کس کا دل قومی خزانہ لوٹنے کو نہ چاہے گا۔

 کوئی معاملہ انکوائری سے تفتیش کے مرحلے تک پہنچ گیا ہوتو بھی ملزم اگررقم واپس کرنے پر راضی ہو جاتا ہے تونیب کی منظوری کے بعد معاملہ عدالت بھجوایا جاتا ہےاور عدالتی منظوری کے بعد ملزم سے رقم کی ادائیگی کے لیے کہا جاتا ہے۔

یہ نیب کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ ملزم کی طرف سے کتنی رقم کی واپسی پر مطمئن ہوتے ہیں یعنی یہ کہ اگرملزم پوری رقم ادا کرے یا پھر رقم کے کچھ حصے کی ادائیگی کے بعد معاملہ ختم کر دیا جائے۔

پاکستان میں کرپشن کا یہ عالم ہے کہ کوئی ادارہ اس وبا سے پاک نہیں اور اس کا خمیازہ غربت اور مفلسی کے شکار عوام کو بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ اربوں اور  کھربوں کی کرپشن کرنے والے عوام کے ٹیکس کا پیسہ کک بیکس اور رشوت ستانی کی صورت میں لوٹ کر لے جاتے ہیں اور اگر کہیں پکڑے جائیں تو ۔۔
بقول شاعر
میں بتاؤں تجھ کو تدبیر رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیاہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

ہمارے ملک میں جس طرح گورننس کا نظام تباہ و برباد ہوچکا ہے، کرپشن روکنے والے اداروں کے حالات بھی دگرگوں ہیں اور اگر نیب ترامیم کیس کے فیصلے کو دیکھیں تو احتساب ضرور ہونا چاہیے لیکن ماضی کی طرح قوانین کا غلط استعمال بھی نہیں ہونا چاہیے اور قصور واروں کو کسی صورت چھوٹنا نہیں چاہیے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال گوکہ زبانی تو ہمیشہ اداروں کی ساکھ بڑھانے کے علمبردار رہے لیکن ان کے دور میں ادارے مزید تنزلی کا شکار ہوتے دکھائی دیئے اور چیف جسٹس کی رخصتی کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے معذرت نے ان کے دور کو مزید متنازعہ کردیا ہے۔

 افسوسناک امر یہ ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی خدمات کے دوران بھی عوام کو کوئی بھی سکھ نہیں ملا۔ ان کی بطور چیف جسٹس موجودگی میں بھی بااثر لوگ فائدہ اٹھاتے رہےاور آرٹیکل 184 کے تحت عوامی مفادات پر مبنی کیسز پر ازخود نوٹس لینے سے اجتناب کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور دیگر افراد اور اداروں کے کیسز دوبارہ بحال ہونے والے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرپشن ہمارے معاشرے کیلئے ناسور بن چکی ہے اور ام الخبائث کا جڑ سے خاتمہ ہونا چاہیے اور بے رحم احتساب نظر بھی آنا چاہیے، ماضی کی طرح پولیٹیکل انجینئرنگ اور مخالفین کو دبانے کیلئے نیب کا استعمال نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو قوم کی آس اور امیدوں پر اس بار بھی پانی پھر جائے گا۔

Related Posts