آٹا اور چینی بحران کے ذمہ داران عمران خان کے قریبی ساتھی نکلے، اب کیا ہوگا ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

PM Imran's close associates named responsible for flour and sugar crisis, now what?

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

احتساب کے نام پر وجود میں آنے والی پاکستان تحریک کو22 سالہ جدوجہد کے عوض پہلی بار اقتدار میں آنے بعد مسلسل چیلنجز کا سامنا ہے۔

پاکستان میں بننے والی کسی بھی حکومت کیلئے مشکلات کوئی نئی بات نہیں لیکن جہاں تک وزیراعظم عمران خان کی بات کی جائے تو کرپشن کیخلاف عدم برداشت ان کی پالیسی کا اہم جز ہے۔

گزشتہ دنوں ملک میں اچانک چینی کے بحران نے سر اٹھایا اور چینی کی فی کلو قیمت میں یکمشت 16 روپے فی کل اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ ملک کے مختلف علاقوں میں مصنوعی قلت پیدا کرکے من مانے نرخ وصول کئے گئے جبکہ آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرکے آٹا 80 روپے فی کلو تک فروخت کیا جارہا تھا جس پر وزیراعظم عمران خان نے صورتحال کا نوٹس لیا اور بحران کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کرتے ہوئے تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن تشکیل دیا جس میں اس کمیشن میں وفاقی تحقیقاتی ادارے، انٹیلی جنس ایجنسیاں،ا سٹیٹ بینک اور دیگر اہم اداروں کے اہلکاروں کو شامل کیا گیا۔

ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا کی سربراہی میں آٹا اور چینی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات جاننے کے لیے بنائی تحقیقاتی کمیٹی نے چینی اورآٹے کے بحران کے حوالے سے 40 روز کی تحقیقات کے بعد الگ رپورٹیں وفاقی حکومت کے حوالے کر دی ہیں۔تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں نے چینی کے بحران میں سب سے زیادہ مالی فائدہ اٹھایا ،چینی پر سبسڈی لینے والوں میں جے ڈی ڈبلیو، آر وائی کے شریف اور اومنی گروپ بھی شامل ہیں۔

آٹے کا بحران
تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ملک میں آٹے کے بحران کی ذمہ دار صوبائی حکومتیں ہیں، صوبوں میں گندم کے انتظام کا طریقہ کار خرابیوں سے بھرا ہے ۔گندم کی خریداری سے لے کر گوداموں میں محفوظ رکھنے، آگے مہیا کرنے، پسائی و تقسیم تک خرابیاں ہی خرابیاں ہیں۔سندھ کی جانب سے نومبر 2019 تک گندم نہ خریدنا بھی بحران کی وجہ بنا،پنجاب حکومت کی جانب سے گندم خریداری میں تاخیر کی گئی ،رپورٹ میں وفاقی وزارت فوڈ سکیورٹی اور پاسکو کو بھی بحران کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔گندم اورآٹا بحران میں فلور ملز ایسوسی ایشن کی ملی بھگت بھی بے نقاب ہوئی جس پر13دسمبر2019کو فلور ملز پر ساڑھے 7کروڑ جرمانہ ادا کیاگیا۔

چینی کا بحران
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2018-19کے دوران میں چینی کی پیداوار کم ہونے کے باوجود برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ سے مقامی منڈی میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔شوگر ایڈوائزری بورڈ کے بروقت فیصلے کرنے میں ناکامی کی وجہ سے چینی برآمد کنندگان نے پہلے چینی برآمد کرنے کی سبسڈی حاصل کی پھر مقامی منڈی میں چینی کی قیمتوں میں اضافے سے مالی فائدہ اُٹھایا۔دسمبر 2019 میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی سیکریٹری برائے وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی نے بتایا تھا کہ آئندہ سال گنے کی پیداوار کم ہو گی اس کے باوجود چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی۔حکومت میں اثرو رسوخ اور فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والے شوگر مل مالکان نے کم وقت میں زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جس کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔

چینی پر سبسڈی
آروائی کے گروپ نے 4ارب روپے اور جہانگیر ترین نے3ارب ، ہنزہ گروپنے 2 ارب80کروڑ اور فاطمہ گروپ نے2ارب30کروڑ کی سبسڈی لی، شریف گروپ نے ایک ارب 40 کروڑ اومنی گروپ نے90کروڑ روپے سے زائد کی سبسڈی حاصل کی۔

جہانگیر ترین
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء اور وزیراعظم عمران خان کے معتمد خاص جہانگیر ترین نے چینی کے بحران میں سب سے زیادہ مالی فائدہ حاصل کیا۔چینی پر 3 ارب کی سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین نے اٹھایا،ان کے کے جے ڈی ڈبلیو گروپ نے 56 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی، مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد حاصل کیا۔تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد پی ٹی آئی رہنماء جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ 3میں سے اڑھائی ارب روپے کی سبسڈی مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں دی گئی جب ہم اپوزیشن میں تھے۔

خسرو بختیار
وفاقی وزیر تحفظ خوراک و تحقیق اور جنوبی پنجاب کے بااثر سیاستدان مخدوم خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار کے گروپ چینی کی مد میں 35 کروڑ روپے سے زائد کی سبسڈی لی۔ وفاقی وزیر خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے چینی سے متعلق فیصلوں کے اجلاس میں ٹکراؤ کے پیش نظر شرکت سے گریز کیا تھا۔

مونس الٰہی
پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلل لیگ ق کے مرکزی رہنماء اور موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی کا نام سبسڈی سے مستفید ہونیوالوں میں تیسرے نمبر پر ہے ،مونس الٰہی کاکہنا ہے کہ میں صرف شراکت دار ہوں لیکن رحیم یار خان شوگر مل کی انتظامیہ میں شامل نہیں ہوں۔

وزیراعظم عمران خان
22 سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد وزرات عظمیٰ کے منصب پر پہنچنے والے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کرپشن کو ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں اور کرپٹ عناصر کو انجام تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں اور آٹا وچینی کے بحران کے حوالے سے جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کو کلین چٹ دے چکے ہیں تاہم اب تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعدوزیراعظم کیلئے اپنی ہی پارٹی کے اہم رہنمائوں اور اتحادیوں کو ان کے انجام تک پہنچانا ایک کڑا امتحان بن گیا ہے، اگر عمران خان اس امتحان میں سرخرو ہوجاتے ہیں تو کرپشن فری پاکستان کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔

Related Posts