جامعہ کراچی میں من پسند بھرتیوں پر پیپلز یونائیٹڈ ایمپلائز کا احتجاج

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعہ کراچی میں من پسند بھرتیوں پر پیپلز یونائیٹڈ ایمپلائز کا احتجاج
جامعہ کراچی میں من پسند بھرتیوں پر پیپلز یونائیٹڈ ایمپلائز کا احتجاج

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: جامعہ کراچی کی موجودہ ایڈہاک انتظامیہ پابندی کے باوجود بھرتیاں کررہی ہے، رجسٹرار کے ڈیپارٹمنٹ کی دوسری بھرتی کلینک اور تیسری وفاقی ہاسٹل میں عمل میں لائی گئی ہے۔ تینوں ملازمین سفارش پر میرٹ کیخلاف اور طریقہ کار کے برعکس بھرتی کیے گئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کی موجودہ ایڈہاک انتظامیہ نے سیکریٹری جامعات اینڈ بورڈ مرید علی راہموں کی آڑ میں غیر قانونی بھرتیاں بھی شروع کردی ہیں۔ جس پر بعض اساتذہ اور پیپلز یونائیٹڈ ایمپلائیز کی جانب سے سخت احتجاج سامنے آیا ہے۔

اب تک کی تین بھرتیوں میں اسسٹنٹ رجسٹرار متین عزیز کے بیٹے بلال متین کو پہلے باٹنی گارڈن میں بھرتی کیا گیا اور پھر اُن کا تبادلہ جامعہ کے کلینک میں کردیا گیا، دوسرے نمبر پر میٹرک پاس حارث شاہد ولد شاہد کو جینیات میں اور تیسرے ملازم کو وفاقی ہاسٹل میں بھرتی کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے پیپلز یونائیٹڈ ایمپلائز گروپ کے ذمہ داروں کی ملاقات انتظامیہ سے ہوئی، جس میں انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تمام بھرتیاں ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین سے درخواست آنے کے بعد کی گئی ہیں اور مزید درخواست اگر کوئی بھی چیئرمین فارورڈ کریں تو ہم اُسی پر عمل کریں گے۔

دوسری جانب پیپلز یونائیٹڈ ایمپلائیز کی جانب سے قائم مقام رحسٹرار، ڈپٹی رجسٹرار جنرل اور اسسٹنٹ رجسٹرار جنرل کو جمع کرائی گئی درخواست میں لکھا گیا ہے کہ جامعہ کراچی گوناگوں مسائل کا شکار ہے اور مختلف اوقات میں جامعہ کی انتظامیہ کی نااہلی اور اقربا پروری کی داستانیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔ ہم اس درخواست کے ذریعے بتانا چاہتے ہیں کہ سابق انتظامیہ نے 2020ء کی سنڈیکیٹ کے فیصلے کی وجہ سے تمام معاملات کو روکا ہوا تھا مگر موجودہ قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصرہ خاتون اور قائم مقام رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر مقصود انصاری بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ 22 اگست 2020ء کی سنڈیکیٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

احتجاجی مراسلے میں مزید لکھا ہے کہ عبوری وائس چانسلر ڈاکٹر ناصرہ خاتون اور قائم مقام رجسٹرار مقصود انصاری 22 اگست 2020ء کی سنڈیکیٹ کی جانب سے منظور کی گئی قرار داد (شق نمبر 12 کے مطابق گریڈ 17 سلیکشن بورڈ کی سفارش اور سنڈیکیٹ کی منظوری سے دیا جا سکتا ہے) کی دھجیاں اُڑا کر من پسند افراد کو نواز رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جامعہ کراچی کی انتظامیہ اپنے مفادات کے حصول اور اُن کے تحفظ کیلئے نہ صرف سنڈیکیٹ کے بیرونی بلکہ جامعہ کے اندرونی اراکین تک کو بے خبر رکھ کر اُن کے علم میں لائے بغیر فیصلے کررہی ہے۔ اس قسم کے رویے سے نہ صرف سنڈیکیٹ کو بے توقیر کیا جارہا ہے بلکہ جامعہ کو بدترین بحران اور بدنظمی کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ضلع وسطی وارڈ سرونٹ کاشف کے جعلی چھاپوں کیخلاف اینٹی کرپشن کی تحقیقات شروع

درخواست میں اندیشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ جامعہ کراچی کو آمرانہ اقدامات کے ذریعے تمام تر اصول و قواعد کو نظر انداز کرکے فرمان امروز کے تحت چلایا جاتا رہا ہے اور یہی روش پروفیسر ڈاکٹر ناصرہ خاتون اور پروفیسر ڈاکٹر مقصود انصاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس تمام تر اندھیر نگری کے باعث پیدا ہونے والے بیشمار مسائل کا ہر بار ذمہ دار سندھ حکومت اور ایچ ای سی کو قرار دیکر یہ مافیہ خود کو بری الذمہ قرار دیتا رہا ہے۔

علاوہ ازیں درخواست میں اعلیٰ حکام سے اپیل کی گئی ہے کہ جامعہ کے انتظامی معاملات میں جاری اس قسم کے”خودکش حملوں“ کو روکا جائے۔ جامعہ کراچی کے تشخص اور اس کی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے سنجیدہ اور قانون کے مطابق بلا تفریق تمام تر مصلحتوں سے بالاتر ہوکر فیصلے کیے جائیں۔

Related Posts