پاکستانی ریسر انعام احمد نے دبئی کار ریس میں اہم سنگ میل عبور کرلیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو ٹریبیون

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پاکستانی ریسر انعام احمد نے اس ہفتے دبئی 12 آور اینڈیورینس کارٹنگ ریس میں نیشنز کپ میں پاکستان کی طرف سے سرفہرست 4 کھلاڑیوں میں جگہ بنا کر ایک سنگِ میل عبور کر لیا۔

موقر العربیہ کے مطابق 24 سالہ احمد لندن میں پاکستانی والدین کے ہاں پیدا ہوئے جہاں انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں گو کارٹ ٹریکس پر ریسنگ شروع کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا شوق بڑھتا گیا اور بالآخر وہ 12 سال کی عمر میں برٹش فارمولا چیمپیئن اور 14 سال کی عمر میں یورپی اور عالمی چیمپیئن بن گئے۔ وہ اس وقت امریکن فارمولا 3 لیگ میں ہیں جس سے قبل وہ برطانوی فارمولا 3 میں کار ریسنگ کر رہے تھے اور 17 سال کی عمر میں چیمپئن بن گئے۔

احمد نے پاکستان کے جیو نیوز کو بتایا کہ دبئی ٹورنامنٹ کے لیے پاکستانی ٹیم بنانے کی غرض سے انہوں نے “پاکستان کے دو باصلاحیت ڈرائیورز” یعنی معاز چغتائی اور شمیق سعید کا انتخاب کیا۔

کوالیفائنگ راؤنڈ میں پاکستان دنیا بھر کی 30 بہترین اینڈیورینس ٹیموں کے خلاف نیشنز کپ میں دوسری اور مجموعی طور پر چوتھی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کے بعد ٹیم پاکستان نے تاریخی ٹاپ 4 میں کامیابی حاصل کی لیکن بدقسمتی سے ٹائر پنکچر ہو جانے کی وجہ سے 30 ویں نمبر پر چلے جانے کے بعد بھی اس نے روایتی حریف بھارت پر نو-لیپ کی متأثر کن برتری کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔

انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، “پاکستان کی نمائندگی کرنا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ سنگِ میل حاصل کرنا اعزاز کی بات ہے۔ ہم نے اپنے ملک کا نام سربلند کرنے کے لیے انتھک محنت کی اور بھارت کے خلاف جو ایک اہم فتح حاصل کی، اس سے ہمارے کارنامے میں دلی اطمینان کا مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔۔ یہ فتح نہ صرف موٹر سپورٹ میں پاکستان کی صلاحیتوں کو نمایاں بلکہ ایک نئے باب کا آغاز کرتی ہے جس سے ڈرائیوروں کی ایک نئی نسل کی حوصلہ افزائی ہو گی۔”

2022 میں ایک انٹرویو میں عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے احمد نے کہا کہ جس چیز نے انہیں متأثر کیا وہ “کھیلوں کے حوالے سے ہمارے ملک [پاکستان] اور مسلم دنیا کے بارے میں دنیا کے سوچنے کے انداز کو بدلنے کی خواہش تھی۔”

“ملک [پاکستان] کی نمائندگی وہ چیز ہے جو مجھے طاقت دیتی ہے، جو مجھے کامیاب ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔۔ جو چیز مجھے آگے بڑھائے رکھتی ہے وہ یہ ثابت کرنے کی یہ شدید خواہش ہے کہ ہم بہترین ہو سکتے ہیں۔”

جبکہ احمد نے سفر کیا اور کچھ اعلیٰ ٹیموں کے ساتھ اور دنیا کے بعض بہترین ڈرائیوروں کے خلاف ریس لگائی ہے لیکن انہیں ابتدا میں نسل پرستی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ وہ سیاہ فام برطانوی ڈرائیور لیوس ہیملٹن کے ساتھ سانولے رنگ کے ایک نایاب شخص کے طور پر شریک تھے جنہوں نے انہیں اس ٹیم میں داخل ہونے کی ترغیب دی تھی۔ احمد کو اچھے اسپانسرز تلاش کرنے میں بھی مشکل پیش آئی جس کی وجہ سے انہوں نے کہا کہ وہ یورپ میں فارمولا 2 میں شامل ہونے کا موقع گنوا بیٹھے۔

انہوں نے کہا، “ایسے لمحات تھے جب میں ہار نہیں ماننا چاہتا تھا لیکن لگتا تھا کہ مجھے ہار ماننا ہو گی کیونکہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ بعض دفعہ ایسی صورتِ حال پیش آئی جب ریس سے ایک ہفتہ پہلے میرے پاس اسپانسر نہیں تھا لیکن مجھے ہمیشہ کوئی راستہ مل جاتا تھا۔”

مشکلات کے باوجود احمد نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا جو کبھی کسی ریس میں نہیں ہارے اور ہمیشہ ٹاپ تھری میں رہے۔

انہوں نے کہا، “میں نے ہمیشہ بہترین یا کچھ بھی نہ ہونے کے لیے چیزیں کی ہیں۔ میں صرف ریس میں حصہ لینے یا دوسرے یا تیسرے نمبر پر آنے کے لیے کام نہیں کرتا۔ میں یہاں جیتنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘

پاکستان کے ساتھ اپنے خصوصی تعلق کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں “پاکستان کے لیے ریس میں حصہ لینے اور چیمپئن بننے کے لیے اس زمین پر اتارا گیا تھا۔”

انہوں نے کہا، “میرے پاس دو سب سے بڑے محرکات ہیں: ایک یہ کہ اپنے ملک کو سربلند کرنا اور پاکستان کے پرچم کو بلند ترین مقام پر لے جانا اور اپنے والدین کو، اپنے خاندان کو کام سے فراغت دلانا۔”

احمد روڈ ٹو انڈی سیریز میں بھی شریک ہیں جو ریس کار ڈرائیور کا ڈویلپمنٹ پروگرام ہے جس نے انڈی کار سیریز اور انڈیاناپولس 500 تک پہنچنے کے لیے سکالرشپ کے ذریعے فنڈ فراہم کیا۔

Related Posts