لانگ مارچ ٹھس ہوچکا، پاکستان طالبان حکومت تسلیم کرے، مولانا فضل الرحمن

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ افغانستان میں حکومت قائم ہونے کے بعد میری رائے یہ ہے کہ پاکستان کے مفادات کی بنیاد پر ہمیں افغانستان کی امارت اسلامیہ کو تسلیم کر لینا چاہیے تاکہ باہمی تعلقات کی بنیاد پر ہم پاکستان کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔

ڈیرہ اسمعٰیل خان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے دوستانہ اور مضبوط تعلقات کے خواہاں ہیں، افغان طالبان اور ان کی 20 سالہ قربانیوں کے نتیجے میں امارت اسلامیہ کا قیام ہوا ہے، اور بڑی قوتوں نے اعتراف کر لیا ہے کہ افغانستان پر جبری حکومت نہیں کی جاسکتی۔

یہ بھی پڑھیں:

پروپیگنڈا غلط، مچھر کالونی واقعے میں پیش امام بے گناہ قرار

ان کا کہنا تھا کہ اگراس میں کوئی رکاوٹ ہے، کچھ چیزیں جو باہمی عدم اعتماد کا سبب بن رہی ہیں، یا افغانستان کی امارت اسلامیہ کی طرف سے پاکستان کے لیے یا ہماری طرف سے امارت اسلامیہ کے لیے، اس کا حل میرے ذہن میں یہ ہے کہ معلومات کے تبادلے کا نظام ہونا چاہیے، تو ہم باہمی عدم اعتماد کو روک سکتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان کو معاشی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے ہم کسی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار نہیں، جو لوگ سیاسی طور پر ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کررہے ہیں، 2017 سے بین الاقوامی قوتوں کی مداخلت کے ساتھ سیاسی عدم استحکام پیدا کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:

ایرانی وزیر کی بے حجاب گرل فرینڈ کیساتھ تصاویر سامنے آنے پر عوام مشتعل

ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں تاریخ کی بدترین دھاندلی کے نتیجے ملک پر جعلی حکمران مسلط کیا گیا، جس نے ملکی معیشت کو تباہ و برباد کردیا، آئی ایم ایف سے ایسے معاہدے کیے جن کے نتیجے میں پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے نام گروی رکھ دیا گیا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اس کی آزادی کے نام پر آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا گیا، آج پاکستان کا اسٹیٹ بینک اور اس کا گورنر نہ ملک کے وزیراعظم کو جوابدہ ہے، اور نہ ہی ملک کی کابینہ اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ جب چین کے صدر پاکستان آرہے تھے اس موقع پر دھرنے دیے گئے، اور کوشش کی گئی کہ چین جیسا پاکستان کا دوست پاکستان میں سرمایہ کاری نہ کرسکے، اس کوشش کو ناکام بنایا گیا، ملک کو بچایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جب پاکستان کا وزیراعظم چین کے سفر پر چلا گیا ہے اور وہاں پر پاکستان میں سرمایہ کاری پر بات کررہا ہے، اس موقع پر وہ اسلام آباد میں مسلح طور پر داخل ہونے کی بات کررہے ہیں، ان کے وزرا ایسی گفتگو کررہے ہیں کہ جیسے پی ٹی آئی کوئی دہشت گرد تنظیم ہو، جو سیاست اور دلیل پر یقین نہیں رکھتی، وہ حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اپنے وزیراعظم کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ (عمران خان) کو کوئی فیس سیونگ نہیں دینی، کسی قسم کی کوئی مفاہمت نہیں کرنی، ان کا لانگ مارچ ٹھس ہو چکا ہے، اب اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ دو ہزار سے زائد لوگ اکٹھے نہیں کر پارہے ہیں، اسلام آباد میں آنے کے لیے تاریخ پہ تاریخ دے رہے ہیں، میرا خیال یہ ہے کہ یہ راستے سے واپس ہو جائیں گے، یہ اسلام آباد آنے کے متحمل نہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلحہ پہنچا رہے ہیں، تاکہ کچھ لاشیں گریں اور ان لاشوں پر وہ سیاست کرے، یہ ہے سیاست؟ یہ ہے جمہوریت؟

ان کا کہنا تھا کہ بنیادی چیز یہ ہے کہ جمہوری نظام میں سیاسی استحکام ناگزیر عمل ہے، سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام آئے گا، اس کے بعد آئین اور قانون کی بالادستی ہوگی۔

Related Posts