کشمیر میں ظلم و بربریت پر عالمی ضمیر جگانے کی ضرورت ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج سے پانچ سال قبل 2015ء میں ترکی کے ایک ساحل پر شامی بچے کی تصویر میڈیا کی زینت بننے کے بعد دوسالہ ایان کردی مہاجرین کے بحران کی علامت بننا جس نے پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔

اس طرح کی ایک اور تصویر دو روز قبل پوری دنیا کے میڈیا کے سامنے آئی جس میں مقبوضہ کشمیر میں ایک ننھا بچہ اپنے نانا کے سینے پر بیٹھا ہے جسے بھارتی فورسز نے بے دردی سے گولی مار کر ہلاک کردیا۔

تین سالہ بچے کی تصویر نے کشمیر میں غم و غصے کو جنم دیا ہے ، مقتول کے اہل خانہ کا دعویٰ کے بزرگ کو بلااشتعال گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔

قابض بھارتی فورسز نے مقتول پر عسکریت پسندی کا الزام عائد کیا ہے، بھارتی فورسز کا کہنا ہے کہ مرنے والے شخص سے بچے کو بازیاب کرایا گیا جبکہ شہید کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ قابض فورسز کے اہلکاروں نے بزرگ کو گاڑی سے زبردستی گھسیٹ کر نکالا اور گولیاں ماردیں۔

اپنے نانا کے خون میں بھیگے بچے نے بھی واقعہ کی گواہی دی ہے اور نانا کے سینے پر بیٹھے کی تصویر سوشل میڈیا پر آنے کے بعد پوری دنیا میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی لیکن امریکا میں  افریقی نژاد سیاہ فام جارج فلائیڈ اور ایان  کے برعکس اس واقعہ پر اقوام عالم نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا ۔

دنیا بھر میں بہت سارے لوگ جارج فلائیڈ کے قتل پر احتجاج کر رہے تھے اور سیاہ فاموں کی حمایت کررہے تھےلیکن کشمیر میں 65 سالہ بشیر احمد کے قتل پر کوئی تحرک نہیں اٹھی حتیٰ  کہ اس واقعے کی عالمی سطح پر مذمت بھی نہیں کی گئی۔

ہندوستانی میڈیا نے بے گناہ شہری کی ہلاکت کو عسکریت پسندی کے ساتھ نتھی کرکے صحافتی اخلاقیات کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے برعکس کشمیری صحافی نے اس کی کوریج کرکے اپنا حق ادا کیا ہے۔

بھارتی افواج نے وبائی امراض کے وقت بھی مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم جاری رکھے ہیں۔ سیکڑوں کشمیری ہلاک ، لاپتہ یا نظربند ہیں۔ بشیر احمد کے جنازے میں شریک افراد نے ہندوستان سے آزادی کے مطالبے پر ایک مظاہرہ کیا۔

کشمیریوں کے پاس اپنی خودمختار حیثیت کی بحالی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔کشمیر میں  ہونیوالے اس انسانیت سوز واقعہ کی تحقیقات ہونی چاہیے اور# کشمیر لائف میٹر کو نیا ٹرینڈ بنانا چاہئے۔

Related Posts