چیئرمین پی ٹی آئی کی 71ویں سالگرہ، کیا عمران خان دوبارہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سابق وزیرِ اعظم اور موجودہ چیئرمین پی ٹی آئی نے زندگی کی 71 بہاریں دیکھ لیں جبکہ ملکی سیاست میں عام انتخابات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان دوبارہ وزیر اعظم بنیں گے؟

عمران خان کے دورِ اقتدار میں کورونا وائرس نے گزشتہ برس ہی دُنیا بھر میں ہلچل مچائی جس سے کھربوں ڈالرز کا نقصان ہوا جو آج بھی جاری ہے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ 

یہ بھی پڑھیں:

حکومت کو موبائل سمز کی دوبارہ تصدیق کی ضرورت کیوں پڑی؟

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال تحریکِ انصاف کے حق میں نظر نہیں آتی کیونکہ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی زیادہ تر قیادت یا تو جیلوں میں قید ہے یا پھر ان کے خلاف مقدمات قائم ہیں اور وہ گرفتاریاں، پیشیاں اور قانونی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ سب کیسے ہوا اور کیا عمران خان دوبارہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں، آئیے حقائق کا جائزہ لیتے ہیں:

تحریکِ انصاف کی جدوجہد  اور عمران خان

چیئرمین پی ٹی آئی نے تحریکِ انصاف نامی سیاسی جماعت کا آغاز  25 اپریل 1996ء کو کیا۔ عمران خان وزیرِ اعظم بننے سے قبل براڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر اور شوکت خانم کینسر ہسپتال کے بانی بھی تھے۔

آج سے 5 سال قبل وزیر اعظم بننے والے عمران خان نے ایک کرکٹر کے طور پر شاندار زندگی گزاری اور 1992ء میں پاکستان کو ورلڈ کپ بھی جتوایا، جس کے بعد سے آج تک یہ کارنامہ کوئی اور کرکٹر سرانجام نہیں دے سکا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے معاشیات، فلسفہ اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ اگر سیاسی نظریات کی بات کی جائے تو عمران خان کے نزدیک آزاد احتساب بیورو، آزاد عدلیہ اور آزاد الیکشن کمیشن پاکستان کے مسائل کا واحد حل ہے۔

اقتدار اور سیاست کیلئے تحریکِ انصاف 17 سالہ جدوجہد کے بعد ایک مضبوط سیاسی پارٹی بنی جس نے خیبر پختونخوا میں اپنی صوبائی حکومت بنا لی۔ ووٹوں کے لحاظ سے پی ٹی آئی ملک کی دوسری اور سیٹوں کے لحاظ سے تیسری بڑی سیاسی پارٹی بن گئی جو ایک اچھا آغاز تھا۔

بعد ازاں 2018ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف نے ملک بھر سے شاندار کامیابی حاصل کی اور خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں اور وفاق میں اہم نشستیں حاصل کیں۔ 2018ء سے 2022 تک وفاقی کابینہ کے وزراء اور وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں۔

وزارتِ عظمیٰ سے علیحدگی

اپریل 2022میں عمران خان ملک کے وہ پہلے وزیر اعظم بنے جنہیں قانونی طریقے سے تحریکِ عدم اعتماد کامیاب کروا کر اقتدار سے الگ کردیا گیا اور یوں وہ 100 روز کا وعدہ، احساس پروگرام اور انصاف کارڈ سمیت دیگر سہولیات دینے والا عمران خان وزیر اعظم ہاؤس کو الوداع کہہ گیا۔

یہ سب کچھ اتنی آسانی سے نہیں ہوا۔ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کردیا، اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیجی اور صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل بھی کرڈالی تاہم سپریم کورٹ نے قاسم سوری کی رولنگ غیر قانونی قرار دے دی۔

یوں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد بحال کی گئی قومی اسمبلی میں پیش ہوئی جس کی اراکین نے توثیق کردی اور پھر عمران خان جو وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی بھی تحلیل کرچکے تھے، قانونی طریقے سے بے دخل ہوئے، بقول شاعر: اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا۔ 

بے فائدہ احتساب اور سیاسی خلفشار 

بلاشبہ عمران خان کا یہ خواب تھا کہ وہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، سابق صدر آصف زرداری اور اپوزیشن جماعتوں کے بدعنوان سیاستدانوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے، لیکن احتساب کا یہ نعرہ بے سود ثابت ہوا۔

آج عدلیہ کے فیصلوں، نیب کی ناکامیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی قوم کے سامنے ہے۔ سیاسی خلفشار ایک الگ مسئلہ ہے۔ شہباز شریف حکومت بھی رخصت ہوئی اور نگران حکومت نے عنانِ اقتدار سنبھال لی لیکن سیاسی جوڑ توڑ تاحال جاری ہے۔

تحریکِ انصاف کا اختتام؟

پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزرا اور سابق معاونینِ خصوصی سمیت اکا دکا نہیں، درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں پی ٹی آئی رہنماؤں، عہدیداران اور کارکنان نے پارٹی اور سیاست چھوڑ دی ہے۔ درجنوں کی پریس کانفرنس ٹی وی پر نشر ہوئی جن میں تازہ ترین اضافہ عثمان ڈارکا ہوا ہے۔ 

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جیسے پی ٹی آئی کا اختتام ہوچکا ہے کیونکہ وہ عمران خان جسے تحریکِ انصاف کا روحِ رواں سمجھا جاتا تھا، پہلے اٹک جیل اور پھر اڈیالہ جیل میں قید ہے۔ پھر بھی پی ٹی آئی کی بچی کھچی قیادت کا اصرار ہے کہ تحریکِ انصاف انتخابات میں حصہ لے گی اور عمران خان ہی اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔

عمران خان اگلا وزیر اعظم

کہا جاتا ہے کہ سیاست میں حرفِ آخر کچھ نہیں ہے۔ ایک طرف تو پی ٹی آئی قیادت عتاب کا شکار ہے اور پی ٹی آئی رہنما بالکل اسی طرح مقدمات بھگتتے پھر رہے ہیں جیسا کہ عمران خان کے دور میں اپوزیشن کے ساتھ سلوک کیا جاتا تھا تو دوسری جانب عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے انکار بھی نہیں ہوسکتا۔

بعض تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ عمران خان کی سیاسی جماعت درِ پردہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرکے یا کسی اور طریقے سے اقتدار پر قبضہ جمانے کیلئے کمر کس چکی ہے تاہم ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو بھی اس کھیل سے الگ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آصف زرداری بھی سیاسی محاذ پر متحرک ہیں اور نواز شریف بھی رواں ماہ پاکستان آمد کا اعلان کرچکے ہیں۔

Related Posts