حکومت کا کاٹن اکانومی کے فروغ کا فیصلہ درست ہے،میاں زاہد حسین

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کا سب سے بڑے مسئلہ کرپشن اور نااہلی ہے،میاں زاہد حسین
پاکستان کا سب سے بڑے مسئلہ کرپشن اور نااہلی ہے،میاں زاہد حسین

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے کاٹن اکانومی کے استحکام اور فروغ کے لئے کئے جانے والے فیصلوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

منڈی میں کپاس کی قیمت گرنے کی صورت میں حکومت کی جانب سے فوری مداخلت اور پانچ ہزار روپے من کپاس خریدنے سے کاشتکاروں کا رسک کم اور ان کا اعتماد بحال ہوگا۔ اس سے کپاس کے زیر کاشت رقبہ میں اضافہ ہوگا۔

جس سے لاکھوں خاندان اور ملک کے سب سے بڑے صنعتی و برآمدی شعبہ پر مثبت اثرات مرتب ہونگے اور برآمدات میں اضافہ ہو گا کیونکہ انکی کاروباری لاگت کم ہو جائے گی۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً ایک دہائی سے کپاس کی پیداوار اور زیر کاشت رقبہ میں مسلسل کمی آ رہی تھی اور کاشتکار دیگر فصلوں کی جانب مائل ہو رہے تھے۔

جسکی وجہ سے ملک میں کپاس کی پیداوار کم ہو رہی تھی جبکہ طلب پوری کرنے کے لئے کپاس کی درآمد پراربوں ڈالر خرچ ہو رہے تھے جسکی وجہ سے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس اہم شعبہ میں مداخلت کی جائے۔

2011 سے جب ٹریڈنگ کارپوریشن نے کپاس کی خریداری بند کی تھی تو اس فصل کازوال شروع ہوگیا تھا اور گزشتہ سال پیداوار سات ملین بیلز تک کم ہوگی تھی جو تیس سال میں کم ترین پیداوار ہے۔

جسکی وجہ سے پچاس لاکھ گانٹھ سے زیادہ کپاس درآمد کرنا پڑی جس پر قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوا۔ اب حکومت نے2021-22 کے لیے ساڑھے دس ملین بیل کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ کاشتکاروں کو استحصال سے بچایا جائے گا۔

کپاس کے معیاری بیج اور معیاری کیڑے مار ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، جننگ ٹیکنالوجی کو بہتر بنایا جائے گا، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر توجہ دی جائے، معیار بہتر بنایا جائے اور ضرورت پڑنے پرکاشتکاروں کے مفادکے تحفظ کے لئے فوری کاروائی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: ایف پی سی سی آئی اور عمان چیمبر کا معاشی اور تجارتی تعلقات بڑھانے پر غور

میاں زاہد حسین نے کہا کہ اگر کاشتکاروں کے لئے سستے قرضوں اور سستی کھاد کا انتظام بھی کیا جاتا تو بہتر رہتا۔ بعض ماہرین کے مطابق پنجاب اور سندھ کے مقابلہ میں بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں کپاس کو نقصان پہنچانے والے کیڑے کم ہیں جبکہ زیادہ پیداوار ممکن ہے جس کا مکمل جائزہ لیا جائے۔

گزشتہ سال کی پیداوار کے مقابلہ میں اس سال پیداواری ہدف میں ساڑھے تین لاکھ گانٹھ کا اضافہ کیا گیا ہے جس کا حصول صرف اس صورت میں ممکن ہو گا جب تمام فیصلوں پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔

Related Posts