ایک نظر مسیحی فوبیا پر بھی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیراعظم پاکستان عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد پوری شدت سے دنیا کے ہر فورم پر اسلامو فوبیا کے حوالے سے آواز اٹھاتے رہے ہیں اور یہ عمران خان کی ذات کا ہی کرشمہ ہے کہ دنیا کے بااثر ممالک اسلامو فوبیا کے تدارک کیلئے اقدامات اٹھانے پر آمادہ دکھائی دے رہے ہیں۔

کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ ہمیں اس نفرت انگیز عمل کو مکمل طور پر روکنے اور اپنی کمیونٹیز کو کینیڈا میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے محفوظ بنانے کی ضرورت ہے اوراس مقصد کے لیے ہم اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے ایک نمائندہ خصوصی مقرر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔کینیڈین وزیراعظم سے قبل روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے بھی اسلامو فوبیا کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ نبی ﷺ کی توہین آزادئ اظہارِ رائے نہیں ہے۔

البرٹ عروج بھٹی کے مزید کالمز پڑھیں:

میرا کپتان ایماندار ہے

حادثے سے بڑا سانحہ

یہ درست ہے کہ مذہب کی توہین کسی صورت برداشت نہیں ہے اور کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کیلئے عرصہ حیات تنگ کرنے کا کسی کو بھی اختیار نہیں۔ جہاں ہم لفظ فوبیا سنتے ہیں تو وہیں اسلامو فوبیا ذہن میں آجاتا ہے کیونکہ پاکستان میں یہ لفظ بکثرت استعمال کیا جاتا ہے لیکن اگر ہم پاکستان میں موجود اقلیتوں کی حالت زار کا جائزہ لیں تو احسا س ہوتا ہے کہ پاکستان میں مسیحی فوبیا کا مرض بڑھتا جارہا ہے۔

فوبیا کسی چیز کا خوف یا اس سے نفرت کی بھی ایک شکل ہے اور اگر ہم پاکستان میں مسیحی فوبیا کا جائزہ لیں تو حقیقت جان کر آنکھیں کھلی رہ جائینگی۔ پاکستان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے اور صحت کے شعبہ میں گرانقدر خدمات کے باوجود مسیحیوں کو مبینہ طور پر تیسرے درجہ کا شہری مانا جاتا ہے۔

ملک میں شدت پسند عناصر کی طرف سے ہر روز کہیں نہ کہیں مسیحیوں کو صرف مذہب کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے مسیحی مذہبی شدت پسندی اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں کبھی ملوث نہیں رہے بلکہ مسیحی پوری ایمانداری سے اپنی فرائض منصبی انجام دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو برابر کے شہری کا درجہ نہیں دیا جاتا،نوعمر بچیوں کو اغواء کرکے جبری مذہب تبدیلی اور نوکریوں کے نام پر خاکروب کی اسامیاں مسیحی فوبیا کی روشن مثالیں ہیں۔

پاکستان میں شدت پسندوں کے ہاتھوں مسیحیوں کے گھر محفوظ ہیں نہ عزتیں، مال محفوظ ہے نہ جان لیکن دنیا صرف اسلاموفوبیا کا تدارک ہی کیوں کرے؟ مسیحی فوبیا کا بھی تدارک ہونا چاہئے۔ پاکستان میں اگر صرف چند واقعات پر نظر ڈالیں تو روح کانپ اٹھے۔

شہبازبھٹی کا قتل ہویا مردان کے سینٹ پال چرچ پر حملہ، جوزف کالونی کے 100 سے زائد مسیحی گھر ہوں یا گوجرہ کے مسیحی گھر، پشاور کے چرچ کا دھماکہ ہویا حاملہ شمع اور شہزاد کا زندہ جلایا جانا، یوحنا آباد کے چرچ پر حملہ ہویا ایسٹر دھماکہ، پشاور میں پادری کا قتل، درجنوں مسیحی بچیوں کا اغواء اور جبری مذہب تبدیلی ہویا خاکروب کی آسامیاں یہی نہیں ایسی درجنوں مثالیں پاکستان میں مسیحی فوبیا کا ثبوت ہیں۔

کہنا یہ مقصود نہیں کہ اسلامو فوبیا کا خاتمہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ سوال یہ ہے کہ دوسروں کے ہاں اسلاموفوبیا تلاشنے والے اپنے ہی وطن میں  کرسچنوفوبیا کو ختم کریں گے کیونکہ یہاں محض دشمنی کیلئے جھوٹے الزامات لگاکر مسیحیوں کے گھر جلادیے جاتے ہیں اور دہشت گردی کیلئے آنیوالی نورین لغاری جیسی خطرناک دہشت گرد کو باعزت گھر بھیج دیا جاتا ہے۔

یہ روس ، کینیڈااور دیگر ممالک کا اعلیٰ ظرف ہے کہ انہوں نے آپ کے ایک مدعا کو نظر انداز کرنے کے بجائے اس کو مسئلہ بننے سے پہلے روکنے کیلئے تیاری شروع کردی ہے لیکن پاکستان میں ایک نہیں سیکڑوں واقعات کے باوجود کوئی مسیحی فوبیا  کو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں۔

یورپ میں چند ایک مثالیں ضرور ہوسکتی ہیں جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہاں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی ممالک میں ہی ذات پات اور مذہب پوچھے بغیر مسلمانوں کو اعلیٰ حکومتی عہدوں سے نوازا جاتا ہے لیکن پاکستان میں کوئی مسیحی کسی کلیدی عہدے پر نہیں جاسکتا۔

کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور سچ ہر حال میں اپنا آپ منوالیتا ہے۔تو کینیڈا میں اسلامو فوبیا کے بیان پر خوشی سے بغلیں بجانے والے اگر یورپ اور کینیڈین امیگریشن میں پاکستانی مسلمانوں کی پناہ کی درخواستیں دیکھ لیں تو شاید شرمندگی کے مارے انہیں کہیں منہ چھپانے کی جگہ بھی نہ ملے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے دنیا میں اسلامو فوبیا کا مسئلہ اٹھاکر مسلمانوں کیلئے ایک اہم اقدام اٹھایا ہے اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بڑھتی مذہبی شدت پسندی کی روک تھام کیلئے بھی اقدامات اٹھائیں تاکہ مسیحی فوبیا کا بھی تدارک کیا جاسکے۔

Related Posts