جامعہ کراچی میں پہلی بار ڈین ریسرچ گرانٹ ORIC اکاؤنٹ سے دینے کے باوجود 5 ڈین غیر حاضر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعہ کراچی پہلی بار ڈین ریسرچ گرانٹ ORIC اکاونٹ سے دینے کے باوجود 5 ڈین غیر حاضر
جامعہ کراچی پہلی بار ڈین ریسرچ گرانٹ ORIC اکاونٹ سے دینے کے باوجود 5 ڈین غیر حاضر

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: جامعہ کراچی کی موجودہ انتظامیہ نے مبینہ طور پر کراچی یونیورسٹی ٹیچر سوسائٹی (KUTS) کی ایماء پر گرانٹ براہ راست یونیورسٹی کے بجٹڈ اکاونٹ کے بجائے ڈین ریسرچ گرانٹ آفس آف ریسرچ اِنوویشن اینڈ کمرشلائزیشن (ORIC) کے ماتحت دی ہے۔

جامعہ کی جانب سے ڈین ریسرچ گرانٹ کی تقسیم کی تقریب کے موقع پر جامعہ کی 5 اہم فیکلٹیز کے ڈین شریک ہی نہیں ہوئے، جن میں ڈین ایجوکیشن ڈاکٹر ناصر سلیمان، ڈین سوشل سائنسز ڈاکٹر نصرت ادریس، ڈین فارمیسی ڈاکٹر فیاض وید کی جگہ قائم مقام ڈاکٹر اقبال اظہر اور ڈین منیجمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریٹیو سائنسز ڈاکٹر خالد محمود عراقی سمیت ڈین لاء جسٹس حسن فیروز شامل ہیں۔ جبکہ تقریب میں ڈین سائنسز کی حیثیت سے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ناصرہ خاتون خود موجود تھیں۔

جامعہ کی تاریخ میں پہلی بار ڈین ریسرچ گرانٹ میں اتنی زیادہ تعداد میں ڈین نہیں آئے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ تقریب کی طرح پہلے کبھی تقریب بھی منعقد نہیں کی گئی۔ جبکہ اب تقریب منعقد کرنے کے باوجود بھی چیکس تقسیم نہیں کیے جاسکے۔

معلوم رہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے ماتحت شعبے نیشنل ریسرچ پروجیکٹ یونٹ (این آر پی یو) کو جامعات کے اساتذہ کی جانب سے پروپوزل بھیجا جاتا ہے، جس کے بعد پروجیکٹ ایوارڈ ہونے پر HEC مذکورہ رقم براہ راست یونیورسٹی کو دیتا ہے جس کے بعد یونیورسٹی HEC رولز کے مطابق اس پروجیکٹ کی 15 فیصد رقم آفس آف ریسرچ ‛ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن (ORIC) کے اکاؤنٹ میں ڈال دیتی ہے ۔

ORIC کو مذکورہ 15 فیصد رقم دینے کا مقصد طلبہ کی تحقیقی صلاحیتوں کو ابھارنا، جامعہ کو صنعتوں سے متعلق آگاہ کرنا اور تحقیقاتی سیمینار کا انعقاد کرنے سمیت دیگر امور کی انجام دہی ہوتا ہے ۔ جامعہ کی انتظامیہ نے مذکورہ رقم ORIC کے تحت کلیہ جات کو دیکر Mis-appropriation کیا ہے جو مالی بد انتظامی کی بدترین مثال ہے ۔

جبکہ 15 فیصد کے بعد بقیہ 85 فیصد رقم یونیورسٹی کی جانب سے متعلقہ تحقیقی پروجیکٹ کے امیدوار کو حسب ضرورت دی جاتی ہے ۔

معلوم ہوا ہے کہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اجمل خان (مرحوم) کے دور میں براہ راست یونیورسٹی اکاونٹ سے 35 لاکھ کی ڈین ریسرچ گرانٹ دی گئی تھی جس میں اساتذہ نے 70 فیصد پروجیکٹ جمع نہیں کرائے اور ایڈجسٹمنٹ بھی نہیں کرائی۔ جبکہ خالد عراقی کے تین سالہ دور میں ڈین ریسرچ گرانٹ مل ہی نہیں سکی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر اجمل خان مرحوم کے دور میں تحقیق کاروں کو ڈین ریسرچ گرانٹ ملی تھی جبکہ متعدد ڈین فیکلٹیز نے اساتذہ کو گرانٹ فراہم ہی نہیں کی ۔ اب موجودہ انتظامیہ نے ڈین ریسرچ گرانٹ کی تقریب منعقد کی اور چیک نہیں دیئے ہیں جس کی وجہ سے بعض اساتذہ کا کہنا ہے کہ یہ KUTS اور ایڈمنسٹریشن کا گٹھ جوڑ ہے، جس کا مقصد آئندہ اساتذہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔

جامعہ کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق جامعہ کراچی کے کلیہ فنون و سماجی علوم کی سماعت گاہ میں جمعرات کے روز جامعہ کراچی کے مختلف کلیہ جات کے 240 اساتذہ میں 35 لاکھ سے زائد روپے کے ڈینز ریسرچ گرانٹ کی تقسیم کی تقریب منعقد ہوئی۔

جس میں کلیہ علوم کے 201 اساتذہ کو تین کروڑ ایک لاکھ پچاس ہزار کی ریسرچ گرانٹ جبکہ کلیہ علم الادویہ کے 26 اساتذہ کو 39 لاکھ،کلیہ تعلیم کے 11 اساتذہ کو 11 لاکھ اور کلیہ نظمیات و انتظامی علوم کے دو اساتذہ کو دو لاکھ روپے کی ریسرچ گرانٹ فراہم کی جا رہی ہیں ۔

اس موقع پر جامعہ کراچی کی قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصرہ خاتون نے کہا کہ جن معاشروں میں دانشور، محقق اور مدبر ابھر کر سامنے نہیں آتے وہ معاشرے جمود کا شکار ہو جاتے ہیں، ملک و قوم کی ترقی کے لئے تعلیمی شعبے میں وسیع سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔مغربی ممالک کی تیزی سے ترقی کا راز تحقیق پر سرمایہ کاری ہے اور آج وہ تحقیق پر کی جانے والی سرمایہ کاری کے نتائج سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔ ریسرچ گرانٹ کی فراہمی کے لئے ایک ایسا مربوط نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے آسانی سے گرانٹ کاحصول ممکن ہو سکے اور محققین کو غیر ضروری دشواریوں کاسامنا نہ کرنا پڑے۔ ہم آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن کے ذریعے ایک ایسا ہی نظام وضع کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور مجھے امید ہے کہ اس کے مثبت اور دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔

جامعہ کراچی کے قائم مقام رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر مقصود علی انصاری نے کہا کہ سرمایہ کاری کے بغیر تحقیق ممکن نہیں لیکن بدقسمتی سے شاید ہماری ترجیحات میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق شامل نہیں، جس کا منہ بولتا ثبوت ایک عرصے سے تعلیم و تحقیق کے لئے مختص بجٹ ہے جو تعلیم کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ہمارے محققین اور بالخصوص نوجوان محققین کے لئے ریسرچ گرانٹ کا بروقت اجراء ناگزیر ہے۔

صدر انجمن اساتذہ جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر شاہ علی القدر نے کہا کہ ڈالرز کی تیزی سے جاری اُڑان کے مقابلے میں حالیہ ریسرچ گرانٹ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے کیونکہ ڈالرمیں اضافے اور روپے کی بے قدری کی وجہ سے لیب آلات اور کیمیکلز کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لہذا ریسرچ گرانٹ میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے اور اچھی تحقیق کے لئے وسائل کا ہونا ضروری ہے۔ریسرچ گرانٹ کی بروقت ادائیگی ناگزیر ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا۔میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصرہ کا خاتون کا بیحد مشکور ہوں جن کی ذاتی دلچسپی کی بدولت مذکورہ گرانٹ کا اجراء ممکن ہو سکا ہے۔

بعدازاں ڈائریکٹر آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن پروفیسر ڈاکٹر بلقیس گل نے بھی ریسرچ گرانٹ اور اس کے حصول سے متعلق طریقہ کار پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

Related Posts