ہاں ! میں غدار ہوں۔۔۔

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہم نے 80ء کی دہائی میں جب آنکھ کھولی تو اس دور میں نہ تو موبائل فون عام تھا نہ کیبل ٹی وی کا دور اور سوشل میڈیا کا تو کوئی اتاپتا بھی نہیں تھا ، اسکول کے بعد گھر آکر اگر ٹی وی پر کچھ دکھائی دیتا تو وہ کرکٹ، نصرت فتح علی کی قوالیاں یا ملی نغمے سننے کو ملتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ زمانہ امن میں بھی پی ٹی وی پر مسعودرانااورشوکت علی کا نغمہ جاگ اٹھا ہے سارا وطن سن کر ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی اور دل کرتا تھا کہ ہم بھی ابھی محاذ پر جاکر لڑنا شروع ہوجائیں، ایسے ماحول میں ہر بچے کی طرح کرکٹر یا فوجی بننے کا شوق فطری تھا اور شومئی قسمت کہ کرکٹ کھیلتے ہوئے ٹانگ تڑوانے کے بعد نہ کرکٹ کے رہے نہ فوج کے رہے صنم۔

ذاتی طور پر لکھنے پڑھنے کا بھی شوق تھا تو یار لوگوں کے مشورے اور مدد سے اخبار کی دنیا میں قدم رکھا اورنوجوانی میں ہی کراچی میں کئی موسم اور کئی رنگ دیکھے، عروس البلاد کراچی میں مذہبی رواداری دیکھی توکشت وخوان کی ندیاں بھی بہتی دکھائی دیں، کبھی غیروں کیلئے قطاروں میں کھڑے ہوکر اپنا خون دیتے دیکھا تو کبھی بنا جانے انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کو بھی دیکھا۔

قلم اٹھانے کے قابل ہوئے تو اپنی بساط کے مطابق مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تو اوئل عمری میں ہی دور آمریت میں قلم کی نوک پر ہاتھ رکھ دیا گیا اور کئی سال تک محض خبریں بنانے پر ہی اکفتا کیا لیکن اندر کی خلش بڑھتی گئی تو دوبارہ قلم کو کمان بناکر مسائل کو نشانے بنانے کی کوشش کی تو کبھی غدار تو کبھی طرح طرح کے طعنے سننے کو ملے۔

خاکسار نے اپنے قلم سے ہمیشہ سماجی مسائل اور برائیوں کا احاطہ کیا ہے اور جہاں تک یاد پڑتا ہے ، سب سے زیادہ پیپلزپارٹی، پھر ن لیگ کیخلاف لکھا اور اب تک پی ٹی آئی کی پالیسیوں پر سب سے کم طبع آزمائی کی ہے لیکن پھر بھی حکومت پر تنقید کی وجہ سے حلقہ یاراں میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ اورغدار کے تمغے مل چکے ہیں ۔

جہاں تک غداری کی بات ہے تو پاکستان میں فاطمہ جناح جیسی شخصیت کو غداری کا تمغہ مل سکتا ہے تو کیا پدی کیا پدی کا شوربہ یعنی ہم کس کھیت کی مولی ہیں، بطور صحافی کبھی کسی بلڈر، شراب خانے، جوئے کے اڈے، حوالہ ہنڈی یا کسی بھی برائی میں ملوث لوگوں سے سازباز نہیں کی اور ہمیشہ برائیوں کی نشاندہی کی ہے اور اگر یہ کرنا غداری کے ذمرے میں آتا ہے تو مجھے خوشی ہے کہ میں غدار ہوں۔

بطور ذمہ داری شہری اگرآپ مسیحی ہیں تو گرجا پر نظر رکھیں کہ کہیں وطن کیخلاف کوئی پروپیگنڈہ تونہیں ہورہا، اگر مسلمان ہیں تو منبر و محراب پر نگاہ رکھیں کہ کوئی غیر ملکی ایجنٹ عالم دین بن کر معصوم ذہنوں میں پاکستان کیخلاف زہر تو نہیں گھول رہا۔

غرض جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اپنے حلقے میں وطن وسماج دشمن سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور دیکھیں کہ کہیں ہولی کے رنگوں میں ترنگے کی آمیزش تو نہیں اور پڑوس سے مصیبت کی طرح آکر ہمارے وسائل پر قابض پناہ گزین ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث یاافغان جھنڈے تو نہیں لہرارہے۔

اپنے اردگرد غیر قانونی سرگرمیوں، مالی لین دین، غیر قانونی اسلحہ اور دیگر سماجی برائیوں پر نظر رکھ کر آپ غداروں کی فہرست کا حصہ بنتے ہیں تو یہ قابل فخر بات ہے۔

جہاں تک خاکسار کی بات ہے تو میں کوئی زیادہ ذمہ داری شہری تو نہیں ہوں لیکن اپنی حیثیت کے مطابق حکومت کی ناکامیوں، سماج میں پنپنے والے مسائل اور برائیوں کی نشاندہی کرنے سے اگر میں غدار کہلاتا ہوں تو میرے لئے جھوٹا، منافق اور بے حس انسان بننے سے غدار کہلانا زیادہ بہتر ہے۔

Related Posts