ییلو کیب اور ہاؤسنگ اسکیم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عوام کو روزگار کی فراہمی کے لئے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 1992میں ییلو کیب اسکیم شروع کی تھی، جو ہم سب کو یاد ہے، سابق وزیر اعظم نواز شریف اس پر ابھی تک فخر کرتے ہیں، انہوں نے بے روزگار نوجوانوں کو جس طرح روزگار فراہم کرنے کا سوچا،اسکیم بری طرح ناکام ہوگئی۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے رعایتی نرخوں پر قرضوں کی فراہمی کے ذریعے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام شروع کیا ہے۔

آئیے، نواز شریف کی ییلو کیب اسکیم کا عمران خان کی ہاؤسنگ اسکیم سے موازنہ کرتے ہیں، 1992 میں، مہنگائی کی شرح 9.51فیصد تھی اور آج 10.74فیصد ہے، ہمیں بیروزگاری سمیت، غربت کے مسائل کا سامنا ہے، اس صورتحال میں ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ عمران خان کی اسکیم کامیاب ہوگی؟ تمام حکومتوں کا یہ معمول ہے کہ عام آدمی کی قوت خرید کو بہتر بنائے بغیراور مہنگے اخراجات کو کم کرنے پر توجہ دیئے بغیر اسکیموں کو شروع کردیا جاتا ہے۔

نواز شریف نے ٹیکسی سروس کو جدید بنانے اور بیروزگاروں کو روزگار کی فراہمی کے لئے ییلو کیب اسکیم متعارف کرائی، مگر یہ اسکیم بری طرح ناکام ہوگئی، مگر اس کے باعث ہزاروں کی تعداد میں امپورٹڈ کاریں پاکستان میں آگئیں، پاکستانیوں کی اکثریت ان میں تین گاڑیوں کا نام با آسانی لے سکتے ہے، سوزوکی مہران، ڈائیوو ریسر اور ہنڈائی ایکسل۔دوسرے میں سوزوکی آلٹو، نسان سنی اور ڈائی ہیسٹو کورے شامل ہوسکتے ہیں۔ اسکیم کے تحت 12 کے قریب مختلف گاڑیاں ملک میں درآمد کی گئیں۔

نواز شریف نے اس اسکیم کو اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا اور اب بھی اس پر فخر کرتے ہیں۔ گاڑی حاصل کرنے کے لئے مالکان کو شروع میں صرف دس فیصد ادا کرنے کی ضرورت تھی، جبکہ بینکوں نے بھی مالی اعانت فراہم کی، اس کے باوجود اس اسکیم کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ نئی ٹیکسیوں کو درآمد کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور بروقت ادائیگی کرنے میں مالکان کی ناکامی نے بینکوں کو اسکیم بند کرنے پر مجبور کردیا۔ کم از کم 15 ارب روپے قرضوں کی مد میں دیئے گئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق 70فیصد ٹیکسی مالکان ادائیگی کرنے میں ناکام رہے، اس اسکیم کو نگراں وزیر اعظم معین قریشی نے روک دیا تھا کیونکہ مالکان ادائیگیوں کو برقرار نہیں رکھ پا رہے تھے اور انہیں ڈیفالٹر کیا جارہا تھا۔

پاکستانی بینکوں کے پاس بڑی تعداد میں غیر منقولہ اثاثوں پر قبضہ کرنے اور ان کو ختم کرنے کا ناقص ریکارڈ ہے۔ اسی مسئلے کا عمران خان کی نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کو سامنا کرنا پڑے گا۔ لوگوں نے پلاٹ خریدنے اور اپنے مکانات تعمیر کرنے کی خاطر حکومت سے بڑی تعداد میں قرضوں کا تقاضہ کیا ہے، بینکوں کو گھروں کے لئے 5فیصد مارک اپ پر قرض جاری کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، اگر قرض دینے والا ڈیفالٹ ہوجاتا ہے تو، بینکوں کو آپ کی جائیداد سنبھالنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

اب قریب تیس سال کے بعد، بینکوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ ڈیفالٹ کی صورت میں فوری طور پر جائیداد ضبط کریں۔ماضی کے تلخ تجربے کے بعد اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا بینک قرضے جاری کرتے ہیں اور عدم ادائیگیوں پر کارروائی کرتے ہیں؟۔ ایک عام خواب ہے کہ اپنا اپنا گھر بنائے۔ اب عام آدمی مکانوں کے قرضوں کے حصول کے لئے جائے گا، جیسے وہ ٹیکسیوں کے حصول کے لئے گئے تھے۔مگر ادائیگی میں ناکام ہونے کے بعد، وہ اپنا گھر اور اپنی زندگی کی بچت سے محروم ہوجائیں گے۔

ییلو کیب اسکیم کے دوران کاروں کے تیار کرنے والے اور درآمد کنندگان پیسہ کمانے میں اصل فاتح تھے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم میں، ہاؤسنگ سیکٹر میں سرمایہ کار ہوں گے جو اپنا کالا دھن کماتے ہیں اور جو بینک سود کماتے ہیں، جرمانے عائد کرتے ہیں اور جائیدادیں ضبط کرلیتے ہیں، رہائشی اسکیموں پر قرض دینے کے بجائے حکومت کو چاہئے کہ بنیادی ضروریات کی چیزوں کی قیمت کم کرنے پر توجہ دے، یہ تب ہی ممکن ہوگا جب لوگوں کے پاس اچھی ملازمتیں ہوں گی، بجلی سستی ہوتی، تعلیم کو سستا کیا جائے گا اور عام آدمی کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔ ہمارے سیاستدان صرف اور صرف عوام کو بھیک مانگنے کے لئے کھوکھلے خواب دکھاتے ہیں،بجائے اس کے کہ وہ قوم کو مزید کمانے کا درس دیں۔

Related Posts