جبری مذہب تبدیلی روکنے پر اعتراض کیوں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: لا اکراہ فی الدین۔ آیت کا مکمل ترجمہ یہ بنتا ہے کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔ (سورۂ بقرہ)۔ 

متذکرہ بالا آیتِ قرآنی کے مطابق دین اسلام میں کوئی جبر نہیں ہے لیکن پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ بن چکی ہے اور ملک میں ہونیوالے غیر قانونی و جبری مذہب تبدیلی کے واقعات کو روکنے کیلئے ایک بل متعارف کروانے کی شنید ہے لیکن پاکستان میں ہمیشہ کی طرح بنا جانے اور بنا سمجھے تنقید کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔

پاکستان کے ایک سینئر صحافی انصار عباسی کے مطابق پاکستان میں اسلام قبول کرنے کو جرم بنانے کے لیے قانون سازی پر کام ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب کی تبدیلی کے نام پر ایک بل بنایا گیا ہے جو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کے زیر غور ہے اور جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس بل کو قانون بنا دیا گیا تو اسلام قبول کرنے پر پاکستان میں پابندی لگ جائے گی اور اسلام کی تبلیغ کرنے والے مجرم ٹھہریں گے۔

پاکستان کے بے شمار مسائل کے ساتھ ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں اسلام بار بار خطرے میں پڑجاتا ہے حالانکہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ مانا جاتا ہے لیکن پھر بھی یہاں اسلام ہمیشہ خطرے میں کیوں رہتا ہے اس کا جواب آج تک نہیں مل سکا ہے مسلمان اکثریت کے ملک میں مسلمانوں یا اسلام کو کیونکر خطرہ ممکن ہے۔

جہاں تک انصار عباسی صاحب کے پیش کردہ نکات ہیں تو پہلی بات کہ ریاست پاکستان 18 سال سے کم عمر بچے کو شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں دیتی تو مذہب تبدیل کرنے کی اجازت کیسے دے سکتی ہے اور اگر اسلام قبول کرنے والا شخص جج کے سامنے اقرار کرتا ہے تو اس میں مضائقہ کیا ہے ؟ اور قبول اسلام تو مسلمانوں کے نزدیک ایک نہایت اہم اقدام ہے اور اس کو چھپایا بھی نہیں جاتا تو پھر عدالت میں بیان دینے میں کیوں پریشانی لاحق ہورہی ہے اور اگر آپ جبری مذہب تبدیل نہیں کرواتے تو آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ تمام قواعد و ضوابط اور قانونی تقاضوں کو پورا کرکے آپ نے ایک شخص کو پکا مسلمان بنالیا ہے۔

میری 37 سالہ زندگی میں ایک دو نہیں ہزاروں بار مجھے میرے مسلمان دوستوں نے کبھی مذاق تو کبھی دعوت کی نیت سے بلایا لیکن میرا جواب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ میں ایک کامل مسیحی نہیں بن سکا تو اچھا مسلمان کیسے بن سکتا ہوں اور دوسری بات یہ کہ اگر کوئی واقعی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوا ہے تو بتانے میں کیا حرج ہے جبکہ ہوسکتا ہے کہ اس کے پیغام سے متاثر ہوکر مزید غیر مسلم بھی مسلمان ہوجائیں۔

پاکستان میں نوعمر بچیوں کی مذہب تبدیلی کے 99 فیصد واقعات جبری ہوتے ہیں۔ نوعمر بچیوں کو اغواء کرکے پہلے ان کی عصمت دری کی جاتی ہے بعد میں انہیں بری طرح ڈرا دھمکا کر اپنی مرضی کا بیان لیا جاتا ہے جبکہ پولیس اور عدالت بھی مجرموں کا ساتھ دیتی ہے اور اگر بالفرض محال کسی بچی کو شیلٹر ہوم بھیج بھی دیا جائے تو وہاں اس کے اہل خانہ سے ملوانے کے بجائے مغویہ کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور یوں ایک معصوم بچی صرف جنسی تسکین کیلئے غیر انسانی رویوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

میں نے کئی برسوں کی صحافت کے دوران صرف 10 ،12، 14یا 15 سال کی نوعمر نابالغ بچیوں کے قبول اسلام کی خبریں ہی دیکھی، سنی یا بنائی ہیں اور آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ اسلامی تعلیمات سے صرف نوعمر بچیاں ہی کیوں متاثر ہوتی ہیں اور بالآخر کیوں باپ سے بڑی عمر کے مرد 10،12 یا 14 سال کی بچیوں سے ہمیشہ شادی ہی کرتے ہیں کبھی یہ مرد ان بچیوں کو قبول اسلام کرواکر اپنی بیٹیاں بنائیں تو ہمیں بھی دکھائی دے کہ کسی بچی نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا اور فلاں شخص نے اس کے سرپر دست شفت رکھا ہو، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا، ایک اور اتفاق یہ ہے کہ کبھی ہندو یا مسیحی لڑکے نے مسلمان لڑکی کیلئے اسلام قبول کیوں نہیں کیا۔ اگر آپ کے پاس کوئی مثال ہے تو بتائیں۔

پاکستان میں مسلمانوں کو پوری اجازت ہے کہ مسیحیوں ، ہندوؤں یا کسی بھی مذہبی اقلیت کو جو مرضی کہیں لیکن جہاں سوال کیا جائے وہاں سنگین الزام لگا دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں آج تک توہین مذہب کا ایک بھی کیس ثابت نہیں ہوسکا کیونکہ پاکستان میں غیر مسلموں کی بہنوں بیٹیوں کی عزت پامال کرنے سے روکنے پر اکثر جھوٹے الزامات لگا دیئے جاتے ہیں اور سوال کرنے پر مسلمان اسلام خطرے میں ہے کا نعرہ لگاکر اقلیتیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، لیکن مولوی عزیز الرحمان جیسے لوگ جو مدرسہ میں بیٹھ کر انتہائی گھناؤنا کام کریں اور بعد میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسمیں کھائیں اور پھر جرم کا اقرار کرلیں اس پر کسی مسلمان کو کوئی فرق پڑتا ہے ناں اسلام خطرے میں آتا ہے۔

ایک طرف قرآن کہتا ہے کہ دین میں جبر نہیں یعنی اگر کوئی جبری مذہب تبدیل کرواتا ہے تو قرآن کے مطابق وہ قابل گرفت عمل ہے اور ریاست قرآن کی روشنی میں اگر کوئی قانون ترتیب دیتی ہے تو مسلمانوں کو پریشانی کیوں ہے، اگر کوئی اپنی رضا مندی سے اسلام قبول کرتا ہے تو اس کو جج کے سامنے اعتراف کرنے میں اعتراض کیوں؟۔

قانون کا مقصد لوگوں کو قبول اسلام سے روکنا نہیں ہے بلکہ اغواء، جنسی زیادتی اور دیگر مجرمانہ فعل کرکے پردہ ڈالنے کیلئے کئے جبری مذہب تبدیلی کے واقعات کو روکنا ہے اور اگر آپ جبری مذہب تبدیلی میں ملوث نہیں ہیں تو آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں قانون بننے سے جبری مذہب تبدیلی کا داغ دھل جائیگا۔

قانون بننے کے بعد قبول اسلام کا معاملہ مزید پختہ ہوجائیگا اور آپ دنیا کو بتاسکتے ہیں کہ فلاں شخص اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکراپنی مرضی سے مشرف بہ اسلام ہوا ہے اور اگر کوئی واقعی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہوا ہے تو اس کو قابل تقلید مثال بنائیں کیونکہ جب تک ایمان لانے والا بغیر کسی دباؤ کے اپنی مرضی نہیں بتائے گا جبری مذہب تبدیلی کا یہ داغ دور نہیں ہوگا۔

Related Posts