انتخابات کے انعقاد پر شکوک کیوں ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہر چند کہ انتخابات کی تیاری دھوم دھام سے جاری ہے مگر سنجیدہ حلقوں میں یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ کیا انتخابات ہوں گے؟ ہمارے نزدیک یہ سوال پیدا ہونے کی تین وجوہات ہیں۔

٭ پہلی وجہ یہ کہ پاکستان میں مارشل ہمیشہ تب ہوتا ہے جب امریکہ میں ریبلیکنز اقتدار میں ہوتے ہیں۔ ہم اور آپ جتنا بھی یہ سوچیں کہ ہم نے باجوہ والے ہائبرڈ نظام کو “جد و جہد” کرکے اکھاڑ پھینکا۔ مگر حقیقت بس اتنی ہے کہ ہائبرڈ نظام اس لئے اکھڑ گیا کہ امریکہ میں ٹرمپ یعنی ریپبلکنز کو دوسری ٹرم نہ مل سکی۔

اگر ٹرمپ 2020 میں جیت جاتا تو باجوے اور فیض حمید کا کوئی کچھ بھی نہ اکھاڑ پاتا۔ اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ اس سال نومبر میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہیں۔ اور اب تک کی صورتحال میں ٹرمپ کی جیت یقینی نظر آرہی ہے۔ یوکرین اور اسرائیل کی صورتحال نے بائیڈن کا بھٹہ بٹھایا دیا۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمارے جی ایچ کیو میں بہت سوں کو فوجی مداخلت والی بے چینی شروع ہوگئی ہوگی۔ اور اس بے چینی کے “روحانی اثرات” باہر آرہے ہوں گے۔

٭ دوسری وجہ یہ کہ یہ سیاسی اصول اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیجئے کہ پارٹی لیڈرز نارمل صورتحال میں فتح و شکست دونوں خندہ پیشانی سے قبول کرسکتے ہیں۔ یعنی صورتحال یہ ہو کہ یہ پارٹی کو لیڈ کر رہے ہوں اور پارٹی ہار جائے تو وقتی سی چوں چاں کرکے ہار مان لیں گے۔ لیکن یہ بات کسی بھی صورت قبول نہیں کرسکتے کہ ان کی پارٹی جیت جائے اور یہ کھیل سے باہر ہوجائیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا کھیل ختم۔ یاد کرلیں یہ میاں اظہر کے ساتھ ہوچکا ہے۔ اس کے بعد میاں اظہر کبھی سیاسی منظرنامے پر نظر آئے ؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی پارٹی لیڈر کو بھنک بھی پڑ جائے کہ اس کی پارٹی تو جیت سکتی ہے مگر وہ خود وہ نہیں تو ایسی صورت میں وہ ہر حال میں یہ کوشش کرے گا کہ اس کی پارٹی جیتے نہیں اور کھیل کسی بگاڑ کا شکار ہوجائے۔ پارٹی اپوزیشن میں رہ جائے مگر اسی کی پراپرٹی رہے یہ تو سیاستدان کو قبول ہوتا ہے مگر پارٹی اقتدار میں آجائے اور پارٹی لیڈر سین سے آؤٹ ہوجائے یہ ناقابل قبول اپشن ہوتی ہے۔

نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف کو بھی 2018ء کے انتخابات سے عین قبل یہ آفر دی گئی تھی آپ سائیڈ پر ہوجائیں، بھائی یا کسی اور کو آنے دیں، ہم نون لیگ کے نتائج میں گڑبڑ نہیں کریں گے۔ اور میاں صاحب نہیں مانے۔ یوں عمران خان واحد آپشن بن گئے۔ اب موجودہ صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کو یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں ان کی پارٹی کوکچھ مناسب سی سیٹیں دے کر خود انہیں سین سے آؤٹ نہ کردیا جائے۔ چنانچہ اس موجودہ الیکشن میں حصہ لینا، نتائج قبول کرنا کسی صورت بھی انہیں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ خان کی ترجیح یہ ہوگی کہ بائیکاٹ بھی نہ کرو تاکہ بھرم قائم رہے کہ ہم میدان میں موجود ہیں۔

لیکن الیکشن کو ابھی سے گندا کرو اور اور اس کے نتائج بھی تسلیم نہ کرو۔ مگر یہ کھیل وہ ہار چکے۔ کیونکہ انہیں تو موروثی سیاست زہر لگتی تھی۔ نتیجہ یہ کہ پارٹی پر قبضہ برقرار رکھنے کی آپشن ہی ان کے پاس نہیں ہے۔ خود کو ڈیڑھ شانڑا سمجھنے کے نتائج تو بھگتنے ہی ہوں گے۔

٭ انتخابات کے حوالے سے شکوک و شبہات کی تیسری وجہ کچھ ایسے پٹواری ویلاگر ہیں جو اس نگران حکومت میں پی ٹی وی کی نوکری بھی انجوائے کر رہے ہیں۔ پٹوارخانے کے بے تاج بادشاہ میاں نواز شریف کو واضح نظر آرہا تھا کہ جب ملک میں پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن چل رہا ہو تو ایسے ماحول میں ان کی واپسی خود بخود یہ تاثر قائم کردے گی کہ اس واپسی میں بھی اسٹیبلیشمنٹ کا ہی ہاتھ ہے۔

چنانچہ اس تاثر کے ازالے کے لئے یہ گھٹیا راہ اختیار کی گئی کہ اپنے یوٹویوبرز سے مسلسل ایسے ویلاگ تیار کروائے گئے جن میں نامعلوم ذرائع کے حوالے سے مسلسل یہ دعوے کئے گئے کہ میاں نواز شریف اب بھی اسٹیبلیشمنٹ کو قبول نہیں۔ اسٹیبلیشمنٹ اب بھی یہ کوشش کر رہی ہے نواز شریف نہیں بلکہ کوئی اور پٹواری حکومت سنبھالے۔ حالانکہ یہ نری بکواس ہے۔

نواز شریف جیتتا ہے یا ہارتا ہے۔ خود وزیر اعظم بنتا ہے یا نہیں بنتا اس سے یہ موجودہ اسٹیبلیشمنٹ بالکل لاتعلق ہے۔ چنانچہ نواز شریف کے ناقابل قبول ہونے کی جو من گھڑت داستانیں پٹواری یوٹیوبرز نے پھیلائی ہیں اس سے نواز شریف کو تو ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا الٹا الیکشن کے حوالے سے اس بے یقینی کو مزید قوت حاصل ہوگئی ہے جو ٹرمپ کی ممکنہ جیت اور پی ٹی آئی کی شرارتوں سے پہلے ہی وجود میں آچکی ہے۔

یہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ جیسی باقاعدہ سیاسی جماعتیں ہی ہوتی ہیں جو اپنے وسیع سیاسی تجربے کی روشنی میں مشکل دور بھی سیاسی داؤ پیچ سے گزارتی ہیں، فاؤل نہیں کرتیں۔ ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہوتی ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کا پورا کھیل ایک بڑا فاؤل ہوتا ہے جبکہ ان کا جواب ہر حال میں سیاسی اصولوں پر کھڑا ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ مشکل دور سے جلد نکل بھی آتی ہیں۔ مثلا کیا 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں نون لیگ سے نون لیگی شناخت چھین نہیں لی گئی تھی ؟ تب نون لیگ نے کوئی جوابی فاؤل کرنے کی بجائے اپنے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں جتوا کر وہ بازی جیت لی۔

مگر پی ٹی آئی کا معاملہ الٹا ہے۔ اس جماعت کو سیاست آتی ہی نہیں۔ اسے بس گالی دینا، تضحیک کرنا، توہین کرنا اور بوٹ چاٹنا آتا ہے۔ چنانچہ آپ پچھلے سال 9 مئی کے ہی اخبارات دیکھ لیجئے۔ اس روز بھی اسد عمر کا یہ بیان شائع ہوا تھا کہ جنرل عاصم منیر عمران خان سے ون ٹو ون ملاقات کرلیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ آخر ایک سیاسی جماعت کو آرمی چیف سے ملاقات میں ہی سب کچھ ٹھیک ہوتا کیوں نظر آرہا تھا ؟

کیا 2018 کے انتخابات سے قبل نون لیگ کے کسی لیڈر نے کبھی یہ بیان دیا تھا کہ آرمی چیف نواز شریف سے مل لیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ؟ یا پیپلزپارٹی کے کسی لیڈر نے 80 کی دہائی میں یہ بیان دیا تھا کہ جنرل ضیاء محترمہ سے مل لیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا ؟ نہیں، ان دونوں جماعتوں نے ایسی احمقانہ و غیر سیاسی خواہش کا اظہار کبھی نہیں کیا۔ ایسی خواہشات ہمیشہ ان پارٹیوں کے لیڈر پالتے ہیں جو تانگہ پارٹیاں ہوتی ہیں۔ مثلا جے یو آئی کو ہی لے لیجئے۔ یہ لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچے اور وہاں سے براستہ پتلی گلی آرمی ہاؤس میں ملاقات کو حاضر ہوگئے۔ ایک سیاستدان کا آرمی ہاؤس میں کیا کام تھا ؟

پی ٹی آئی کا بھی مسئلہ یہی ہے کہ سیاست اسے آتی نہیں۔ بڑی عوامی تائید اسے میسر نہیں۔ تو ایسے میں اقتدار کی ساری امیدیں آرمی چیف سے ہی رہ جاتی ہیں۔ اور جب آرمی چیف ہاتھ چھوڑئے انگلی بھی نہ پکڑا رہا ہو تو پھر وہ چھوچورپنے ہی کئے جاسکتے ہیں جو جمشید دستی یا لطیف کھوسہ جیسے لوگ کر رہے ہیں۔

لیکن حیرت ہمیں نون لیگ پر ہے۔ اگر وہ بھی جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کرے گی جن سے الیکشن کے انعقاد پر ہی شکوک و شبہات پیدا ہوجائیں تو کیا ان کا ورکر پوری جان لڑائے گا ؟ اور کیا سیاسی سرگرمیاں پوری توانائی کے ساتھ ہوسکیں گی ؟ اور انتخابات کے بعد کی صورتحال ملک کو استحکام دے پاے گی ؟ ایسے میں میاں نواز شریف سے یہ سوال تو بنتے ہیں کہ آپ ملک کو مسلسل بے یقینی کی حالت میں کیوں رکھنا چاہتے ہیں ؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ عوام مشکلات سے دوچار ہیں ؟ اور ان کی مشکلات کا حل سیاسی استحکام میں ہے ؟

Related Posts