موسمیاتی تبدیلیاں اور سیلاب۔۔۔ تباہی کا راستہ کون روکے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی و بربادی ایک ایسی حقیقت بن چکی ہے جس نے پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں اور ماہرین کی پیشگوئی کے مطابق آئندہ کچھ برسوں میں جنوبی ایشیائی ملک مالدیپ جو مکمل طور پر جزائر پر مشتمل ملک ہے، مسلسل بڑھتی ہوئی سطحِ سمندر کے باعث صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔  

نومبر 2023ء  میں منعقد کی گئی عالمی کانفرنس (کوپ 28) میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے ملکی تاریخ کے بد ترین سیلاب اور اس سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا ذکر ہوا اور پاکستانی وفد نے ہمارا نقطۂ نظر اقوامِ عالم کے سامنے رکھا، جبکہ اس سے قبل پیرس اکارڈ کے آرٹیکل 9 کے تحت دنیا بھر میں کاربن اخراج کے ذمہ دار بڑے ممالک نے 100 ارب ڈالر دینے کی ہامی بھری تھی۔

تاہم امیر ممالک کی جانب سے کیے گئے اربوں ڈالرز کے وعدے محض وعدے ہی رہ گئے اور پاکستان کو سیلاب زدگان کی امداد کے نام پر جو رقوم وصول ہوئیں، وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 2022ء سے اب تک ہمارے سیلاب زدگان امداد کے منتطر ہیں اور موجودہ سیلاب کے نتیجے میں پاکستان پر آنے والی تباہی و بربادی اس کے علاوہ ہے۔

دبئی میں ہونے والی کانفرنس آف دی پارٹیز (کوپ28)  یا مصر میں 2022ء کی کوپ 27 ہو، کوپن ہیگن اکارڈ یا پیرس اکار ڈ، ہر بار کاربن کا اخراج کم کرنے یا زیرو تک لانے کی بات ہوئی اور کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بڑے پیمانے پر نقصانا ت کا خدشہ ہے جس کے نتیجے میں عالمِ انسانیت کی زندگیوں کو خدشات لاحق ہیں، تاہم اس ضمن میں زمینی سطح پر حقیقی کام نہ ہونے کے برابر ہوا  اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید کاربن اخراج کے باعث موسمیاتی تبدیلی متاثر ممالک کا سانس لینا محال کرتی جارہی ہے۔

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ صرف پاکستان یا ترقی پذیر ممالک ہی موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہوسکتے ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس بھڑکتی ہوئی آگ کی لپیٹ میں آسکتے ہیں اور آرہے ہیں، جیسا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی حیران کن ماحولیاتی تبدیلیوں سے صاف ظاہر ہے جن میں گرم موسم کے باعث ملیریا اور ڈینگی جیسے بخاروں کا وباء بن کر پھیلنا، جنگلات میں آتشزدگی  اور گلیشیئر ز کا پگھلنا شامل ہیں۔

یورپی ممالک میں جنگلات کو لگنے والی آگ اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث جنگلی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں جس کے نتیجے میں ماحولیاتی توازن بگڑنے سے آنے والے سالوں میں انتہائی پریشان کن مسائل سامنے آسکتے ہیں۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث گھریلو چڑیاں مر رہی ہیں جنہیں پانی اور دانہ دنکا فراہم کرنے کے متعلق شہریوں کا شعور نہ ہونے کے برابر ہے۔

ماضی کی بات کی جائے تو 50ء کی دہائی میں چین میں کروڑوں کی تعداد میں چڑیوں کو یہ کہہ کر ختم کرنے کی مہم شروع کی گئی کہ یہ ہمارے کھیت چگ جاتی ہیں اور کچھ ہی سال میں چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب چڑیاں ناپید ہونے لگیں، جس کے نتیجے میں کھیتوں میں طرح طرح کے جانداروں اور حشرات نے بسیرا کر لیا اور ٹڈی دل کے حملوں نے رہی سہہی کسر بھی پوری کردی جس سے قحط کی صورتحال پیدا  ہونے سے بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق چڑیوں کو ہلاک کرنے کی مہم کے نتیجے میں کم و بیش ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ شہری ہلاک ہوگئے جس کے بعد چینی حکومت نے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے 1962ء میں یہ ”چڑی مار مہم“ ختم کردی لیکن جتنی تعداد میں انسان نے اس مہم کے دوران چڑیوں کو ہلاک کیا تھا، اس سے زیادہ انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کسی چیز کو، بالخصوص کسی جاندار کو بے کار پیدا نہیں کیا۔صرف چڑیاں ہی نہیں بلکہ ہمارے ماحول کیلئے گدھ، چیلیں، کوے اور کتے بلیاں بھی اتنے ہی لازمی ہیں جتنی کہ انسان خود ، کیونکہ اگر ایک جاندار نہیں ہوتا تو اس کی غیر موجودگی میں دیگر نقصان پہنچانے والے جانور بڑھ کر انسان کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں جنہیں ایسے جاندار کھاتے ہیں اور جس سے ہمارے ماحول میں پرسکون فضا قائم رہتی ہے جسے ماحولیاتی توازن کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیاجاسکتا۔

لیکن حضرتِ انسان کو لاکھوں سال اِس کرۂ ارض پر بسر کرنے کے بعد بھی عقل نہیں آئی اور ترقی یافتہ ممالک انڈسٹرئیلائزیشن کے نام پر فضائی آلودگی کا باعث بنتے ہوئے انسانی نسلوں کے سینوں میں جو زہر اتار رہے ہیں اور ماحول کو جس طرح خراب کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن رہی ہے، وہی ایک دن ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والے متمول افراد کے دامنوں تک بھی پہنچےگی ، لیکن اس سے قبل ترقی پذیر ممالک اور خصوصاً غریب طبقہ اس کا نشانہ بنتا دکھائی دیتا ہے۔

اس موقعے پر اگر ہم آغا خان یونیورسٹی کا ذکر کریں تو بے جا نہ ہوگا کہ اس مادرِ علمی کی باگ ڈور جب سے صدرِ جامعہ سلیمان شہاب الدین نے سنبھالی اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کیلئے کوششیں اور کاوشیں کیں جس کے سبب ایک ایسا ماڈل پیش کیا گیا کہ اگر حکومتِ پاکستان اس کی تقلید کرے تو 2030ء تک کاربن کے نیٹ زیرو اخراج کا ہدف حاصل کیاجاسکتا ہے ، تاہم سرمایہ دار طبقے سمیت دیگر عناصر کو اپنے مفادات کے تحفظ کے پیشِ نظر شاید یہ ماڈل اپنانا دشوار لگے۔

تشویشناک طورپر پاکستان میں گزشتہ کچھ دہائیوں سے سیاسی استحکام مفقود ہے بلکہ قیامِ پاکستان سے ہی کسی بھی جمہوری حکومت کو 5 سال پورے نہیں کرنے دئیے گئے ۔ کبھی مارشل لاء ، کبھی تحریکِ عدم اعتماد تو کبھی ملک گیر دھرنے اور احتجاج کے پیشِ نظر 5 سا ل پورے کرنے کے وعدے اور دعوے کرنے والی حکومت کو اقتدار کے درمیان ہی چلتا کردیا گیا۔

کسی بھی عالمی فورم یا دوست ممالک سے گفتگو کرتے ہوئے جن سے پاکستان کو قرض مل چکا ہوتا ہے اورقرض معافی یا مزید قرض کی امید ہوتی ہے ، سیاسی استحکام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر عمران خان حکومت نے جس طرح آئی ایم ایف سے وعدہ خلافی کی اور آنے والی حکومت کیلئے معاشی گڑھا کھودا، اگر انہیں یہ امید ہوتی کہ 5 سال پورے ہوجائیں گے تو غالباً ایسا نہ کیا جاتا اور ملک میں سیاسی و معاشی استحکام قائم رہتا۔

ضروری ہے کہ پہلے ہم پاکستان میں سیاسی استحکام کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں، پھر خارجہ پالیسی میں جارحانہ انداز اپناتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے اور بالخصوص اپنے اربوں ڈالرز کے قرض معاف کرانے کیلئے عالمی اداروں پر دباؤ ڈالیں، کیونکہ اگر یہاں سیاسی استحکام ہوگا، تبھی عالمی سطح پر ہماری بات سنے جانے اور ہمارے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے قرض معافی کی راہ ہموار ہونے کے زیادہ امکانات ہوسکتے ہیں۔

Related Posts