یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے،؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عمر شریف کا ایک اسٹیج ڈرامہ برصغیر پاک و ہند میں یکساں مقبول ہوا، اتنا مقبول کہ بھارت کے ہر گھر میں کیبل اور پاکستان میں وی سی آر پر دیکھا جاتا تھا، اس ڈرامہ نے بھارتی فلموں کو بھی مات کردیا تھا، اس قدر مقبول کہ کئی قسطیں بنیں۔

اس سلسلے کی ایک قسط میں عمر شریف کا ڈبل رول ہوتا ہے، اس کا ایک ڈائیلاگ کچھ کچھ یوں تھا کہ “یار کل بہت عجیب معاملہ ہوا، میں گھر سے باہر جارہا تھا کہ دیکھا میں ہی گھر کے اندر آرہا ہوں، میرا مجھ ہی سے آمنا سامنا ہوگیا، میں نے میرے ہی منہ پر تھپڑ مارا تو میں نے مجھ ہی کو مکار مار دیا”۔

ایک اور منظر میں کچھ اسی طرح کا مخمصہ درپیش ہوتا ہے، گھر میں کام کرنے والی آیا کی آمد کی نقشہ کشی عمرشریف کچھ ان الفاظ میں کرتا ہے کہ “خدا کی قسم وہ میرے سامنے رکشے میں آئی ہے مگر کہتی ہے میں آیا ہوں”۔

آج کل حکومت پاکستان بھی کچھ کچھ عمرشریف کے ڈرامے “بکرا قسطوں پر” کی تازہ قسط اور وزیراعظم صاحب عمرشریف کا دہرا کردار معلوم ہوتے ہیں، طنز و مزاح سے بھرپور، تضادات کا مجموعہ ایک ایسا کردار اور ڈرامہ کہ ہنس ہنس کر آپ کے پیٹ میں بل پڑ جائیں۔

اب ذرا سنیئے کہ خود ادویات کی قیمتیں بڑھانے کی منظوری دی تو خود ہی اپنے وزیر کو قیمتیں بڑھانے کے الزام میں وزرات سے ہٹا دیا، خود کہتے ہیں چینی کا کوئی بحران نہیں اور پھر خود ہی تحقیقات کرکے چینی بحران کے ذمہ داران کا تعین کردیا، خود پیٹرول مہنگا کرتے ہیں، پھر خود ہی مہنگائی کا نوٹس لے لیتے ہیں، خود لاک ڈاؤن لگاتے ہیں، خود ہی لاک ڈاؤن کے خلاف بھاشن جھاڑ دیتے ہیں، خود ہی کرپٹ وزیر رکھتے ہیں خود ہی کرپشن کے بعد نکال دیتے ہیں اور مقدمہ بھی نہیں بناتے۔

خود ہی مافیاز کے خلاف طبل جنگ بجاتے ہیں اور پھر خود ہی ان مافیاز کے ساتھ سمجھوتہ کرکے ان کی سرپرستی شروع کر دیتے ہیں، خود ہی تحقیقات کا ڈھونگ رچاتے ہیں تو خود ہی تحقیقات میں ملزم قرار پانے والوں کو عہدے اور وزارتیں دے دیتے ہیں، خود کہتے ہیں کورونا محض فلو ہے، پھر خود کہتے ہیں لوگ کورونا کو سنجیدہ نہیں لے رہے اسے محض فلو سمجھتے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان پر بدعنوانی کے الزامات لگا کر انہیں وفاقی وزارت اطلاعات سے ہٹاتے ہیں تو پنجاب میں وزیر اطلاعات لگا دیتے ہیں۔

سب سے بڑا مذاق ہر دس پندرہ دن بعد پیٹرول کی قیمت بیس بیس روپے بڑھانے کی تجویز دیتے ہیں، پھر خود ہی کم کرکے پانچ چھ روپے بڑھا کر قوم سے اس بات پر داد وصول کرتے ہیں کہ تجویز تو زیادہ کی تھی شکر کرو ہم نے اتنا نہیں بڑھایا۔

جن پائیلٹس کو خود جعلی قرار دیتے ہیں پھر ان ہی کے ساتھ جہاز میں سفر کرتے ہیں، دنیا بھر میں قومی ایئر لائن پر پابندیاں لگوا کر خود ہی خوشخبری سناتے ہیں کہ سیدو شریف کے لئے پروازیں شروع کردی ہیں۔ خود ہی ریاست مدینہ کے دعویدار بنتے ہیں اور پھر خود سود بڑھاتے ہیں، مے خانے کھلواتے ہیں، شراب کے کارخانے لگواتے ہیں۔

ہاؤسنگ اسکیم کے لئے نہ زمین لی، نہ نقشہ بنا مگر لوگوں کو ڈھائی سو روپے کے فارمز بیچ دیئے، کروڑوں نوکریوں کا وعدہ کیا اور پھر خود لاکھوں لوگوں کو بے روز گار کردیا، ایک وزارت خود ختم کی، پھر اسی وزارت کے لئے وزیر رکھ لیا۔

حد تو یہ ہے کہ وزیراعظم کے کہنے پر معاشی رابطہ کمیٹی نے بھارت سے درآمدات کا فیصلہ کیا تو خود وزیراعظم نے وزیر خزانہ کی اسی بات پر سرزنش کردی جس کا مشورہ خود ان ہی نے دیا تھا “یعنی میں نے ہی میرے کو تھپڑ ماردیا” ۔

اب کوئی اس گتھی کو سلجھائے، معذور ہیں مجبور ہیں مردان خرد مند، کہ کونسا وزیراعظم اصلی ہے، کونسا وزیراعظم نقلی ہے، فیصلے کونسا وزیراعظم کرتا ہے اور کونسا ان ہی فیصلوں پر تنقید اور ان کو رد کردیتا ہے۔ کیا یہ کوئی ذہنی خلل ہے؟ کیا وزیراعظم واقعی دہری شخصیت کے حامل ہیں؟ یا یہ ڈرامے قوم کی توجہ کچھ اور مسائل سے ہٹانے کے لئے ہیں؟ ۔

یا کہیں ایسا تو نہیں کہ کچھ فیصلے حالت غیر میں ہوتے ہیں اور پھر ہوش میں آنے کے بعد رجوع کرلیا جاتا ہے یعنی بقول شاعررات کو خوب سی پی، صبح کو توبہ کرلی، رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی۔

Related Posts