نیکیاں یوں بھی مل سکتی ہیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سوشل میڈیا نے جہاں معاشرے کیلئے کئی آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں کئی مسائل کو جنم دیا ہے ، آج ایک خاندان کھانے کی میز پر موجود تو ہوتا ہے لیکن ہاتھوں میں موبائل فون کی وجہ سے ایک دوسرے سے بات کرنا یا حال دریافت کرنا بھی مشکل ہوچکا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی چیز بذات خود بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اس کو اچھا یا برا بناتا ہے۔

گزشتہ دنوں میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ میری عادت ہے کہ میں دن بھر کی مشقت کے بعد رات جب سونے کیلئے بستر کا رخ کرتا ہوں تو اپنے موبائل میں واٹس ایپ گروپس اور دیگر پیغامات دیکھتا ہوں جن میں سے کچھ کے جوابات بھی دیتا ہوں تاہم چند روز قبل ایک پیغام پڑھا تو نظر ٹھہر سی گئی اور انگلی کی جنبش سے مذکورہ پیغام دور نہ کیا جاسکا۔

میں نہیں جانتا کہ پیغام بھیجنے والا کون ہے لیکن اس پیغام نے میرے دل پر ایک کاری ضرب لگائی،وہ پیغام کچھ یوں تھا کہ ’’ایک بچی شدید بیمار ہے اور ڈاکٹرز نے اس کو آپریشن تجویز کیا ہے ، آپریشن تو بلامعاوضہ ہوگا لیکن اس سے متعلقہ اخراجات کیلئے یومیہ ہزاروں روپے کی ضرورت ہے‘‘۔ اس طرح کے پیغاما ت اکثر و بیشتر سوشل میڈیا کے کئی پلیٹ فارمز سے دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن اس پیغام میں ایک چھوٹی سی بچی کی تصویر بھی منسلک تھی جس کو دیکھ کر مجھے اپنی بیٹی یاد آگئی جو خود ایک بیماری کا شکار ہے تو مجھے اس بچی کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔

میں نے کوشش کی کہ اس پیغام کو نظر انداز کردوں کیونکہ میری مالی حیثیت ایسی نہیں تھی کہ اس کی کچھ مدد کرسکتا،جب پیغام نظر انداز نہیں ہوا تو میں نے اپنے ایک ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں موجود چند روپے پیغام ارسال کرنے والے کے اکاؤنٹ میں منتقل کردئیے لیکن یہ بہت کم رقم تھی۔  جب تسلی نہ ہوئی تو اچانک دل میں خیال آیا کہ یہ پیغام اپنے دوستوں اور فون میں موجود نمبروں پر بھیج دیتا ہوں کہ شائد کوئی اس بچی کی مدد کردے۔

یہ ایک چھوٹا سا کام تھا لیکن تب خوشی کی انتہاء نہ رہی جب چند ہی لمحوں میں ایک نامور کاروباری دوست نے اس شخص کے اکاؤنٹ میں اچھی خاصی رقم منتقل کرکے مجھے اسکرین شاٹ ارسال کردیا۔ رات کے پچھلے پہر بھی اس بات پر دل جھوم اٹھا اور دن میں دیگر کچھ دوستوں نے بھی بتایا کہ انہوں نے اس شخص کی کسی نہ کسی حد تک مدد ضرور کی ہے۔

یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا لیکن اس واقعے نے میرے نظریات کو کافی حد تک تبدیل کرنے میں مدد کی۔ وہ یوں کہ جب میں نے وہ پیغام دیکھا تواس کو نظر انداز کرنے کی بجائے مدد کرنے کا عزم کیا۔ بیشک میری مالی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی لیکن میری ایک چھوٹی سی کاوش سے اس بچی اور اس کے والدین کو کچھ تو راحت نصیب ہوئی ۔

ایک اور اہم واقعہ اسی سال پیش آیا۔ اس سال بھی ملک میں کورونا کی وجہ سے تقریباً لاک ڈاؤن تھا۔اسپتالوں میں خون کے عطیات کم ہونے کی وجہ سے تھیلیسیمیا کا شکار بچوں کو خون کی کمی کا سامنا رہا۔ مجھ سمیت کچھ مسیحی دوستوں نے مسیحی روزوں کے ایام میں خیرات کے ساتھ ساتھ خون کے عطیات کی مہم چلائی اور بفضل خدا کئی دوستوں نے پاک جمعہ کے روز خون کے عطیات دے بھی دئیے۔

ہم دن بھر سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اور ایسے لاتعداد مسائل ہماری نظروں سے گزرتے ہیں لیکن کسی نہ کسی عذر کی وجہ سے ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تو ہوسکتا ہے کہ اگر ہم کسی بیمار کو دیکھیں تو اس کیلئے ایک بار دعا ضرور کریں۔ اگر کسی کو مالی مشکل میں دیکھیں تو اگر خود کچھ نہیں کرسکتے تو اس پیغام کو آگے دوستوں تک پھیلادیں کہ شائد کوئی اور اس کی مدد کردے۔ اگر کسی پر ظلم ہوتا دیکھیں تو آنکھیں پھیرنے کی بجائے اس پیغام کو آگے پھیلائیں۔ اس سے ہوسکتا ہے کہ وہ پیغام متعلقہ حکام تک پہنچ جائے اور مظلوم کی دادرسی ہوجائے۔

یہ ضروری نہیں کہ ہم مالی طور پر ہی کسی کی مدد کرسکیں بلکہ ہم اپنے ہر مثبت اقدام سے دوسروں کی مدد کرسکتے ہیں ، یہ ضروری نہیں کہ رب کائنات ہماری بڑی بڑی نیکیوں کو ہی دیکھتا ہے بلکہ ہمیں چھوٹے چھوٹے کاموں سے بھی نیکیاں عطا ہوسکتی ہیں۔ نیکیاں یوں بھی مل سکتی ہیں۔

ہم اکثر ضرورت مندوں کو دیکھ کر محض سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ہمارے پاس بڑے وسائل ہوں اور ہم این جی او بناکر لوگوں کی مدد کریں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم صرف پیسے یا بڑے وسائل ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے بھی نیکیاں کماسکتے ہیں۔

Related Posts