کراچی میں ناکافی پولیس

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی جیسے بڑے شہر (میگا سٹی) کو سڑکوں پر پولیس کی زیادہ ضرورت ہے، اس وقت کراچی پولیس فورس کی کل تعداد تقریباً 34 سے 35 ہزار ہے جس میں وی آئی پی ڈیوٹی  کرنے والے تقریبا 7سے 8ہزاراہلکار بھی شامل ہیں۔ کراچی کی 14 سے 18 ملین آبادی کے حساب سے 522 شہریوں کے لئے ایک پولیس آفیسر کا تناسب آتا ہے جو خطے اور دنیا کے دوسرے بڑے شہروں کے مقابلے میں ناکافی بلکہ قابل رحم ہے۔

مثال کے طور پر لندن جیسے  74 لاکھ آبادی والے شہر میں پولیس کی تعداد 47ہزار874ہے جس کا تناسب 1 سے 155 ہے۔ دہلی میں 1 کروڑ 40 لاکھ  آبادی کیلئے تناسب 1 سے 241 ہے۔لاہور اپنے 1 کروڑ  کے ساتھ 30ہزار946اہلکاروں کی استعداد رکھتا ہےجس کا تناسب 1 سے 323 ہے۔ 2006 ءمیں اقوام متحدہ نے بتایا کہ دنیا بھر میں رجحان 1 سے 333 ہے تاہم عالمی ادارہ نے کم سے کم 1 سے 450 تک معیار کی سفارش کی۔

اگر ہم اقوام متحدہ کے تناسب کو دیکھیں تو کراچی میں پولیس کی کل تعداد 40سے 54 ہزار ہونی چاہئے اور مجھے پختہ یقین ہے کہ نئے افسران کی بھرتی کراچی سے ہونی چاہئے۔ پولیس کی قلت کے علاوہ کراچی میں بھی تھانوں کی کمی ہے۔

کراچی میں 107 کے قریب پولیس اسٹیشن موجود ہیں جو ہماری آبادی کے لحاظ سے نسبتاً کم ہیں کیونکہ یہاں ہر 1 لاکھ شہریوں کے لئے0 اعشاریہ 72 پولیس اسٹیشن آتے ہیں۔ لاہور میں تھانوں کا ایک لاکھ آبادی کا تناسب 0.75 ہے جو کراچی سے قدرے بہتر ہے۔ دہلی میں 1 لاکھ آبادی والے تھانے کا تناسب 1.12 ، نیویارک میں 0.92 اور لندن 2.20 ہے۔ دہلی ، نیو یارک اور لندن کے تناسب کو دیکھتے ہوئے کراچی میں تھانوں کی تعداد 166 سے 328 کے درمیان ہونی چاہئے۔
2017 ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں انکشاف ہوا کہ 12ہزار قانون توڑنے والے اہلکار اس پولیس فورس کا حصہ تھے۔ یہ انکشاف منطقی طور پر سندھ کے عوام میں اعتماد کے بھاری خسارے کا باعث ہے۔

کراچی میں جرائم پیشہ گروہوں بھی پولیس کیلئے بڑا مسئلہ ہےجبکہ ایک اور مسئلہ سندھ حکومت کی جانب سے سیف سٹی پروجیکٹ کی سست روی ہے۔ سندھ اپیکس کمیٹی نے دسمبر 2018 میں اپنے 23 ویں اجلاس میں کراچی سیف سٹی پروجیکٹ کی منظوری دی تھی۔ سیف سٹی کے اس فیصلے کو اب ایک سال ہوچکا ہے لیکن فوری طور پر عمل درآمد کی طرف کچھ نہیں ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ جو وزیر داخلہ بھی ہیں کو اسمبلی میں اس معاملے پر وضاحت پیش کرنی چاہیے یا سیکریٹری داخلہ یا سیف سٹی اتھارٹی کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بریف کرنا چاہئے۔

کراچی سیف سٹی پروجیکٹ کو کامیاب بنانے کے لئے ہمیں کراچی کے باسیوں کو حکومت سندھ سے جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا اس نے پولیس ، ٹریفک پولیس ، ایمبولینس ، طبی امداد جیسی ہنگامی خدمات کو تیزی سے ردعمل کی تربیت فراہم کی ہے۔

آپ کے پاس اعلیٰ ہائی ٹیک آلات ہیں اور پورے کراچی میں ایچ ڈی سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہوسکتے ہیں لیکن اگر ہماری ایمرجنسی سروسز ہنگامی صورتحال کا تیزی سے جواب نہیں دیتی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

لاہور سیف سٹی پروجیکٹ ، جس میں 10ہزارحفاظتی کیمرے اور جدید گیجٹس اور تربیت سے آراستہ ایک بڑی گشت کرنے والی سیکورٹی فورس ہے ، تاہم کراچی کو لاہور سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے مزید وسائل کی ضرورت ہوگی تو کیا سندھ حکومت کراچی کو برابری پر لانے کے لئے لاہور سے دوگنا خرچ کرنے پر راضی ہے؟

کراچی میں جرائم کی صورتحال اور خاص طور پر اسٹریٹ کرائمز کے پیش نظر ہمیں کراچی سیف سٹی پروجیکٹ پر فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے لیکن کراچی کے عوام گذشتہ ایک سال سے وزیر اعلی اور ان کی ٹیم کے عام بیانات سنتے رہتے ہیں کہ اس منصوبے کو تیز کیا جارہا ہے۔

یہ بات ظاہر ہے کہ ہمیں سندھ پولیس کی جانب سے انسانی وسائل ، پولیس اسٹیشنوں ، تربیت اورٹیکنالوجی کے معاملے میں کراچی پولیس فورس کی تشکیل میں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکمران جو خود جمہوریت کے چمپئن کہلاتے ہیں ، ان کا اب بھی ایک سامراجی برطانوی راج دور کا نظریہ ہے کہ پولیس عوام کو سخت کنٹرول میں رکھتے ہوئے یا ڈاکٹر محمد شعیب کے الفاظ میں اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے موجود ہے۔

اگر ہم واقعتاً کسی جمہوری ملک میں رہتے ہیں تو حکومت سندھ کو حقیقی طور پر پولیس کو خود مختار ہونے کی اجازت دینی چاہئے۔ مزید برآں اسے اقوام متحدہ کے بین الاقوامی پولیس ٹاسک فورس کی وضاحت کے مطابق جمہوری پولیسنگ کو اپنانا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی کیونکہ “کسی جمہوریت کی پولیس فورس کا کام عوام کا تحفظ اور کسی بھی خوف یا حمایت کے بغیر تمام لوگوں پر یکساں طور پر فوجداری قانون کے اطلاق سے ہے۔

ہمیں بطور کراچی کے رہائشیوں کو قانون کے بہتر نفاذ کا مطالبہ کرنا چاہئے جیسا کہ روبرٹ ایف کینیڈی نے کہا ہے ، “ہر معاشرے کو اس کے مجرم ملتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ اتنا ہی سچ ہے کہ ہر معاشرے کو اس قسم کا قانون نافذ کرنے والا عمل ملتا ہے ۔

Related Posts