اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں پاک فوج کا کردار اور شاہ محمود قریشی کا بیان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں پاک فوج کا کردار اور شاہ محمود قریشی کا بیان
اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں پاک فوج کا کردار اور شاہ محمود قریشی کا بیان

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے آج اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے قیامِ امن فنڈ کیلئے منعقدہ عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج نے قیامِ امن کیلئے دنیا کے 4 براعظموں میں 46 سے زائد امن مشنز میں حصہ لیا۔

عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ فوج کو اسلحہ تھما کر سرحدوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے یا پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم امن مشنز کیلئے فوج کا کردار ایک ایسا پہلو ہے جو مارپیٹ اور لڑائی کے برعکس فوج کا ایک پر امن تصور پیش کرتا ہے۔

آئیے اقوامِ متحدہ کے امن مشنز، پاک فوج کے کردار اور مختلف اعدادوشمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاک فوج نے آج تک قیامِ امن کیلئے کس حد تک وطنِ عزیز کا نام روشن کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی کا بیان

یہی نہیں کہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے صرف پاک فوج کے امن مشنز میں کردار کو واضح کیا بلکہ انہوں نے کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران معاشی مسائل سے گھرے ہوئے پاکستان کی منظر کشی بھی کی۔

انہوں نے پاکستان کی تمام تر مالی مشکلات کے باوجود آج اقوامِ متحدہ کے قیامِ امن مشن کیلئے 25 ہزار ڈالر عطیہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ قیامِ امن کا بنیادی اصول نیشنل اونر شپ ہوتا ہے جسے برقرار رکھنا ضروری ہے کیونکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں پائیدار امن باہر سے مسلط نہیں کیاجاسکتا۔

تنازعات کے حوالے سے وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قوموں کے تنازعات اور مسائل عدم مساوات اور ناانصافیوں کے باعث جنم لیتے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی طرح تسلط کا شکار افراد کو استصوابِ رائے کا حق نہ دینا بھی تنازعات کو جنم دیتا ہے۔ 

اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں پاک فوج کا حصہ

آج کے وزیرِ خارجہ کے بیان میں تو یہ کہا گیا کہ دنیا کے 4 براعظموں میں 46 سے زائد امن مشنز میں پاک فوج نے حصہ لیا، تاہم وکی پیڈیا کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں اقوامِ متحدہ کے 70 امن مشنز میں پاک فوج حصہ لے چکی ہے۔

سن 1947ء میں 30 ستمبر کے روز سے لے کر آج تک پاک فوج اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ پاک فوج بھارت اور ایتھوپیا کے بعد اقوامِ متحدہ کے امن مشنز کیلئے سپاہیوں اور افسران پر مشتمل تیسرا بڑا حصہ فراہم کرتی ہے۔

پاک فوج کا کردار

ایسے ممالک اور خطے جہاں خانہ جنگی، دیگر ممالک کی دست برد اور دراندازی یا دہشت گردی سمیت دیگر مسائل کے باعث امن و امان تباہ ہوجاتا ہے، وہاں اقوامِ متحدہ اپنے امن مشنز بھیجتا ہے جن میں پاک فوج سمیت دیگر ممالک کے فوجی شریک ہوتے ہیں۔ 

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امن مشنز کے دوران پاک فوج سمیت کسی بھی ملک کے کسی اہلکار کو اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، تاہم امن مشنز کا اصل کام امن کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے شہریوں کی مدد کرنا ہے۔

مثال کے طور پر بوسنیا ہرزے گوینا میں سرب فوج بمباری کرے تو پاک فوج سمیت کوئی بھی فوجی اس کے ردِ عمل میں گولیاں نہیں چلا سکتا، نہ ہی گولہ باری کی جاسکتی ہے، تاہم زخموں سے نڈھال شہریوں کو ہسپتال منتقل کرنا اور انہیں خوراک وغیرہ سمیت دیگر امداد مہیا کرنا امن مشنز کا بنیادی کام ہوتا ہے۔

بظاہر یہ سب کچھ خاص طور پر فوج جیسے ادارے کیلئے ایک دردِ سر دکھائی دیتا ہے کیونکہ عام طور پر فوجیوں کو ہتھیار چلانے اور دشمن سے لڑنے کی تربیت دی جاتی ہے، لیکن امن مشنز میں فوج کا کردار مختلف ہوتا ہے۔ فوجی ہتھیاروں کے استعمال کی بجائےعوام کی مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔زیادہ تر صورتوں میں طاقت کے استعمال کی بالکل اجازت نہیں دی جاتی۔ 

ماضی کے امن مشنز 

کانگو میں اگست 1960ء سے لے کر مئی 1964ء تک تقریباً 4 سال تک پاک فوج نے 400 سپاہی اور افسران بھیج کر امن مشن میں حصہ لیا جس میں ٹرانسپورٹ یونٹس اور نیم فوجی دستے بھی شامل تھے۔

مغربی نیو گنی میں اکتوبر 1962ء سے لے کر اپریل 1963ء تک بھی پاک فوج کے 1 ہزار 500 جوانوں نے امن مشن میں حصہ لیا۔ 

نمیبیا میں اپریل 1989ء سے لے کر مارچ 1990ء تک پاک فوج نے اقوامِ متحدہ کے امن مشن کیلئے 20 عسکری مشاہدین بھیجے۔یہاں بھی پاک فوج کا کردار سراہا گیا۔

ہیٹی میں پاک فوج کے 525 جوانوں نے سن 1993ء سے لے کر 1996ء تک تقریباً 3 سال تک امن مشن میں حصہ لیا۔ کمبوڈیا میں بھی مارچ 1992ء سے لے کر نومبر 1993ء تک پاک فوج کے 1 ہزار 106 جوان امن مشن میں شریک ہوئے جن میں عام فوجی، افسران اور اسٹاف کے علاوہ بارودی سرنگوں کو صاف کرنے والا عملہ بھی شامل تھا۔

خوش قسمتی سے کانگو سے لے کر کمبوڈیا تک پاک فوج کا کوئی جوان شہید نہیں ہوا تاہم اگلے مشن یعنی مارچ 1992ء سے لے کر فروری 1996ء تک بوسنیا ہرزے گوینا میں پاک فوج کے 300 سپاہی شریک ہوئے جن میں سے 6 شہید بھی ہوگئے۔

اگلا امن مشن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوا جہاں مارچ 1992ء سے لے کر فروری 1996ء تک صومالیہ میں پاک فوج کے 7 ہزار 200 اہلکار شریک ہوئے جن میں سے 39 شہید ہوگئے۔

روانڈہ میں اکتوبر 1993ء سے لے کر مارچ 1996ء تک پاک فوج نے 7  عسکری مشاہدین کو بھیج کر امن مشن میں اہم کردار ادا کیا۔اسی طرح  انگولا میں فروری 1995ء سے لے کر جون 1997ء تک 14 عسکری مشاہدین بھیجے گئے۔

مشرقی سلوانیہ میں مئی 1996ء سے لے کر اگست 1997ء تک 1 ہزار 14 فوجی اہلکار اور اسٹاف کو اقوامِ متحدہ کے امن مشن پر روانہ کیا گیا۔ سیرالیون میں اکتوبر 1999ء سے لے کر دسمبر 2005ء تک پاک فوج کے 5 ہزار فوجی بھیجے گئے جن میں سے 6 شہید ہو گئے۔ 

موجودہ صورتحال 

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ آج بھی پاک فوج کانگو، لائبیریا، باروندی، آئیوری کوسٹ اور سوڈان جیسے افریقی ممالک میں امن مشنز میں حصہ لے رہی ہے جہاں سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں پاک فوج کے سپاہی وطن سے دور خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔

ہزاروں کی تعداد میں پاک فوج کے جوان اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں کام کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ پاک فوج نے ہمیں 6 ہزار سے زائد ملٹری اور پولیس افسران امن مشنز کیلئے دئیے ہیں جس کیلئے ہم پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

Related Posts