پاکستان میں ان دنوں ایک بار پھرسیاسی درجہ حرارت خوب گرم ہے اور سیاستدان بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں سے ووٹرز کا خون گرماتے دکھائی دے رہے ہیں، پاکستان میں ایک عجیب سا رواج ہے کہ کوئی بھی الیکشن ہوں، سیاسی جماعتیں اپنی کارکردگی بتاکر ووٹ لینے کے بجائے دوسروں پر الزام تراشی کرکے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ لوگ بیوقوف بن بھی جاتے ہیں۔
الیکشن کی گہماگہمی کے دوران کچھ دلچسپ تحاریر نظر سے گزریں جو نذر قارئین ہیں ، سوشل میڈیا پر زیر بحث تحاریر میں صارفین لکھتے ہیں کہ ایک پاکستانی سیاستدان دو یا دو سے زائد حلقوں سے بیک وقت الیکشن لڑ سکتا هے، مگر ایک پاکستانی شہری دو حلقوں میں ووٹ نہیں ڈال سکتا، ایسا دیس ہے میرا۔
ایک شخص جو جیل میں هہے وہ ووٹ نہیں دے سکتا مگر ایک پاکستانی سیاستدان جیل میں ہونے کے باوجود بھی الیکشن لڑ سکتا ہے،ایک شخص جو کبھی جیل گیا ہو کبھی سرکاری ملازمت نہیں حاصل کرسکتا مگر ایک پاکستانی سیاستدان کتنی بار بھی جیل جاچکاہووہ صدر، وزیراعظم، ایم پی اے، ایم این اے یا کوئی بھی عہدہ حاصل کرسکتا هہے۔ بینک میں ایک معمولی ملازمت کیلئے آپ کاگریجویٹ ہونا ضروری ہے ه مگر ایک پاکستانی سیاستدان فنانس منسٹر بن سکتاہے چاہے وہ انگوٹھا چھاپ ہی کیوں نہ ہو، یہ میرے دیس کی ہی خوبی ہے۔
فوج میں ایک عام سپاہی کی بھرتی کیلئے دس کلو میٹر کی دوڑ لگانے کے ساتھ ساتھ جسمانی اور دماغی طور پر چست درست ہونا بھی ضروری ہے البتہ ایک پاکستانی سیاستدان اگرچہ ان پڑھ، عقل سے پیدل، لاپروا، پاگل، لنگڑا یا لولا ہی کیوں نہ ہو وہ وزیراعظم یا وزیر دفاع بن کر آرمی، نیوی اورایئر فورس کے سربراہان کا باس بن سکتاہے۔ اگر کسی کسی سیاستدان کے پورے خاندان میں کوئی کبھی اسکول گیا هہی نہ ہو تب بھی ایسا کوئی قانون نہیں جو اسے وزیر تعلیم بننے سے روک سکے اور ایک پاکستانی سیاستدان پر اگرچہ ہزاروں مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہوں وہ تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا وزیر داخلہ بن کر سربرا بن سکتا هہے۔
پاکستان میں سیاستدان تو بہت ملیں گے لیکن لیڈرز کا فقدان نمایاں ہے، پاکستان میں سیاستدان بننے کیلئے تعلیم، قابلیت، ہنر اور نیک چلن کی کوئی ضرورت نہیں آپ کے پاس پیسہ ہے یا برادری کی حمایت تو آپ ہزار برائیوں کے باوجود پاکستان کی اعلیٰ ایوان کی رونق بڑھا سکتے ہیں اور آپ سے کارکردگی کا بھی کوئی نہیں پوچھے گا ، ایس دیس ہے میرا۔