ایسا دیس ہے میرا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پاکستان میں ان دنوں ایک بار پھرسیاسی درجہ حرارت خوب گرم ہے اور سیاستدان بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں سے ووٹرز کا خون گرماتے دکھائی دے رہے ہیں، پاکستان میں ایک عجیب سا رواج ہے کہ کوئی بھی الیکشن ہوں، سیاسی جماعتیں اپنی کارکردگی بتاکر ووٹ لینے کے بجائے دوسروں پر الزام تراشی کرکے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ لوگ بیوقوف بن بھی جاتے ہیں۔

الیکشن کی گہماگہمی کے دوران کچھ دلچسپ تحاریر نظر سے گزریں جو نذر قارئین ہیں ، سوشل میڈیا پر زیر بحث تحاریر میں صارفین لکھتے ہیں کہ ایک پاکستانی سیاستدان دو یا دو سے زائد حلقوں سے بیک وقت الیکشن لڑ سکتا هے، مگر ایک پاکستانی شہری دو حلقوں میں ووٹ نہیں ڈال سکتا، ایسا دیس ہے میرا۔

ایک شخص جو جیل میں هہے وہ ووٹ نہیں دے سکتا مگر ایک پاکستانی سیاستدان جیل میں ہونے کے باوجود بھی الیکشن لڑ سکتا ہے،ایک شخص جو کبھی جیل گیا ہو کبھی سرکاری ملازمت نہیں حاصل کرسکتا مگر ایک پاکستانی سیاستدان کتنی بار بھی جیل جاچکاہووہ صدر، وزیراعظم، ایم پی اے، ایم این اے یا کوئی بھی عہدہ حاصل کرسکتا هہے۔ بینک میں ایک معمولی ملازمت کیلئے آپ کاگریجویٹ ہونا ضروری ہے ه مگر ایک پاکستانی سیاستدان فنانس منسٹر بن سکتاہے چاہے وہ انگوٹھا چھاپ ہی کیوں نہ ہو، یہ میرے دیس کی ہی خوبی ہے۔

فوج میں ایک عام سپاہی کی بھرتی کیلئے دس کلو میٹر کی دوڑ لگانے کے ساتھ ساتھ جسمانی اور دماغی طور پر چست درست ہونا بھی ضروری ہے البتہ ایک پاکستانی سیاستدان اگرچہ ان پڑھ، عقل سے پیدل، لاپروا، پاگل، لنگڑا یا لولا ہی کیوں نہ ہو وہ وزیراعظم یا وزیر دفاع بن کر آرمی، نیوی اورایئر فورس کے سربراہان کا باس بن سکتاہے۔ اگر کسی کسی سیاستدان کے پورے خاندان میں کوئی کبھی اسکول گیا هہی نہ ہو تب بھی ایسا کوئی قانون نہیں جو اسے وزیر تعلیم بننے سے روک سکے اور ایک پاکستانی سیاستدان پر اگرچہ ہزاروں مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہوں وہ تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا وزیر داخلہ بن کر سربرا بن سکتا هہے۔

پاکستان میں سیاستدان تو بہت ملیں گے لیکن لیڈرز کا فقدان نمایاں ہے، پاکستان میں سیاستدان بننے کیلئے تعلیم، قابلیت، ہنر اور نیک چلن کی کوئی ضرورت نہیں آپ کے پاس پیسہ ہے یا برادری کی حمایت تو آپ ہزار برائیوں کے باوجود پاکستان کی اعلیٰ ایوان کی رونق بڑھا سکتے ہیں اور آپ سے کارکردگی کا بھی کوئی نہیں پوچھے گا ، ایس دیس ہے میرا۔

ایک اور واقعہ ہے کہ کوئی سیاست دان ووٹ مانگنے کیلئے ایک بوڑھے آدمی کے پاس گیا اور انہیں 1000 روپے پکڑاتے ہوئے کہا بابا جی اس بار ووٹ مجھے دیں۔بابا جی نے کہا:بیٹا مجھے پیسہ نہیں چاہئیں پر تمہیں ووٹ چاہیے تو ایک گدھا خرید کے لا دو،سیاست دان کو ووٹ چاہیے تھا وہ گدھا خریدنے نکلا مگر کہیں بھی 40000 سے کم قیمت کوئی گدھا نہیں ملا تو واپس آ کر بابا جی سے بولا ۔ مجھے مناسب قیمت پر کوئی گدھا نہیں ملا ،گدھا کم سے کم 40000 کا ہے اس لئے میں آپ کو گدھا تو نہیں دے سکتا پر1000 روپے دے سکتا ہوں۔بابا جی نے کہا۔ بیٹا اور شرمندہ نا کرو تمہاری نظر میں میری قیمت گدھے سے بھی کم ہے، جب گدھا،40000 سے کم میں نہیں بکا تو میں 1000 روپے میں کیسے بک سکتا ہوں ۔

پاکستان میں الیکشن کے دوران سیاسی جماعتوں کو دیکھیں تو کہیں صحت کارڈ، کہیں ترقیاتی منصوبوں اور کہیں نوکریوں کا لالچ دیکر سیاسی جماعتیں ووٹ مانگتی نظر آتی ہیں لیکن کوئی جماعت ایسی نہیں جو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ڈنکے کی چوٹ پر ووٹ کی اپیل کرے۔غور طلب بات تو یہ ہے کہ حال ہی میں اپنی حکومت کی مدت مکمل کرنے والی جماعت بھی ووٹرز کو بھی آئندہ اقتدار میں آنے کے بعد مسائل کے حل کی یقین دہانیاں کراتی ہے لیکن کوئی یہ پوچھنے کا روادار نہیں ہوتا کہ جناب آپ کی جماعت پچھلے دور میں برسراقتدار رہی ہے تو تب آپ نے مسائل کیوں حل نہ کئے تو جواب ندارد۔

بچپن میں ہم دیکھتے تھے کہ ایک مداری بچے کو ساتھ لیکر کرتب دکھاتا کہ وہ کبھی بچے کی زبان کاٹتا اور کبھی طرح طرح کے کرتب دکھانے کیلئے بچے کی جان خطرے میں ڈالتا اور ایسی لفاظی کرتا کہ حاضرین کی آنکھیں نم ہوجاتیں اور وہ خوشی خوشی جیبیں خالی کردیتے ہیں اور کرتب ختم ہونے کے بعد مداری اپنی جعلسازی اور شہریوں کی سادہ لوحی پر خوب ہنستا کہ کیسے بیوقوف لوگ ہیں جو محض چند جملوں سے پگھل گئے اور کسی نے بھی اس مداری کی چرب زبانی اور جعلسازی کا نوٹس نہیں لیا۔

یہاں قصور سیاسی جماعتوں کا نہیں ہے ہمارے ملک میں کبھی بے بنیاد نعروں اور کبھی پسند ناپسند کی بنیادی پر ووٹ ضائع کردیتے ہیں اور اکثر اوقات تو صرف بریانی کی پلیٹ پرووٹ کا سودا ہوجاتا ہے۔یہ ہمارا ہی قصور ہے کہ ہم چور اچکوں کو لٹیروں کواس امید پر ووٹ دیدیتے ہیں کہ شائد وہ ہماری مشکلات کم کرینگے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے دیکھ لیں وہی چہرے بار بار اقتدار کے منصب پر براجمان ہوتے ہیں اور انتہائی ڈھٹائی سے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں حالانکہ حال ہی میں خود ان کی جماعت اپنا دور اقتدار مکمل کرتی ہے اور ووٹرز یا سپورٹرزبھی بناء سوچے سمجھے داد تحسین پیش کرتے ہیں کہ پچھلی حکومت نے ہمارے مسائل پر توجہ نہیں دی لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پچھلی حکومت انہی کی تھی۔

پاکستان میں سیاست بھی مداری کے کھیل کی طرح ہے یہاں کوئی مجرم سرکاری ملازمت نہیں کرسکتا لیکن بڑے سے بڑا مجرم وزیر، مشیر بن کر قوم کے فیصلے کرسکتا ہے اور یہ سراسر ہمارا قصور ہے کہ ہم ان مداریوں کی جعلسازیوں اور چرب زبانی سے پگھل کراپنا قیمتی ووٹ ضائع کرکے آنیوالے کئی سال تک مصائب کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ ہمارے ہی جیبیں کاٹ کر ہنسنے والوں کو ہم خود یہ موقع فراہم کرتے ہیں، اگر ہم تھوڑی سی کوشش کریں اور دماغ کا استعمال کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں ان مداریوں کی جعلسازی کی سمجھ آجائیگی اور ہم اپنا مستقبل چالبازوں کے ہاتھوں برباد ہونے سے بچاسکتے ہیں۔

Related Posts